جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن جمعے کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ وہ کئی دنوں سے بیمار اور کراچی کے ایک مقامی ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔
منور حسن 5 اگست 1941 کو ہندوستان کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1963 میں سوشیالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور 1966 میں جامعہ کراچی سے اسلامک سٹڈیز کی ڈگری لی۔
انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن سے کیا اور 1959 میں فیڈریشن کے صدر بن گئے۔ اپنے عہد صدارت کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔
منور حسن ایک مختلف سوچ کے حامی تھے اور انہوں نے کئی مواقعوں پر کچھ ایسے بیانات دیے جس سے تنازع کھڑا ہوا اور ان پر تنقید کی گئی۔
طالبان کے بارے میں وہ دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا: 'کسی حد تک دراندازی ہوئی ہے، میں طالبان کو اس ملک کے لوگ سمجھتا ہوں، جنھیں جھوٹے وعدوں پر رکھا گیا تھا۔ انہیں بتایا جارہا تھا کہ شریعت نافذ ہوجائے گی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی ان کی مایوسی بڑھ گئی۔ ان کو جس تبدیلی کا وعدہ کیا گیا تھا وہ کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔'
ان کا مزید کہنا تھا: 'پاکستان ان وعدوں کی بنا پر تشکیل دیا گیا تھا، جو قرارداد مقاصد سے واضح ہے۔ میری رائے میں 1973 کے متفقہ آئین نے اس رجحان کی بنیاد رکھی۔ اگر بھٹو یا ان کے بعد آنے والے اس خط پر اس کی پیروی کرتے تو معاملات مختلف ہوتے۔ پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے اور اب بھی ہمارے پاس حقیقی پارلیمانی نظام موجود نہیں ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کوئی نہیں بولتا اور اس کی بجائے سارا الزام طالبان پر عائد ہوتا ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2013 کے ایک ٹی وی پروگرام میں جماعت اسلامی کے سربراہ نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ 'اگر کوئی امریکی جو میدان جنگ میں مارا جائے، وہ شہید نہیں ہوتا تو اس کی پشت پناہی کرنے والا بھی شہید نہیں ہوتا کیونکہ وہ اسی مقصد کا پیچھا کر رہا ہے۔'
انہوں نے امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو بھی ایک بار 'شہید' کہا تھا۔ بعد ازاں پاکستانی فوج نے جماعت اسلامی کے اس وقت کے سربراہ سید منور حسن کے ریمارکس کی شدید مذمت کی اور ان سے 'غیر مشروط معافی' مانگنے کا مطالبہ بھی کیا۔
علاوہ ازیں حکیم اللہ محسود کو 'شہید' کہنے پر سیاسی جماعتوں کے قائدین بشمول پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور دیگر چھوٹے سیاسی گروہوں نے سید منور حسن کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
سید منور حسن نے 2016 میں اپنے ایک انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ ریپ کا شکار لڑکی کو خاموش رہنا چاہیے اور اس واقعے کی اطلاع پولیس یا کسی اور کو نہیں دینی چاہیے۔ 'ہم ہر روز اپنے ملک میں ریپ اور جنسی استحصال کے واقعات کے بارے میں سنتے ہیں، لیکن ہم نے اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا۔ ان تمام امور کی طرح، جنہوں نے ہمیں شرمندہ کیا ہے، ہم اس کو اس قالین کے نیچے جھاڑ دیتے ہیں، امید ہے کہ یہ دور ہوجائے گا۔'