امریکی خفیہ ادارے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک روسی یونٹ نے طالبان جنگجوؤں کو افغانستان میں امریکی قیادت میں لڑنے والے فوجیوں کو مارنے کے لیے انعامات کی پیش کش کی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں جمعے کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جیسے ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے فوجی انخلا اور امریکہ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کی کوشش کی، مبینہ انعامات کی وجہ سے ان جنگجوؤں کو امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کی ترغیب ملی۔
اخبار نے حکام کی شناخت ظاہر کیے بغیر کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو رواں برس مارچ میں ان نتائج کے بارے میں بتایا گیا تھا تاہم انہوں نے جوابی کارروائی کے طریقے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
اخبار کے مطابق خیال ہے کہ جنگجوؤں نے انعامی رقم وصول کر لی تھی لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کن امریکی فوجیوں کی مخصوص ہلاکت پر شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔
اخبار نے کریملن کے ترجمان کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس کو ان الزامات کا علم نہیں ہے۔
روس کی افغانستان میں تکلیف دہ تاریخ ہے جہاں سابق سوویت یونین 'جہادیوں' کی تباہ کن جنگ میں الجھ کر رہ گیا تھا، تب افغان 'جہاد' کو واشنگٹن کی مدد حاصل تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ نے حال ہی میں روس پر الزام لگایا ہے کہ اس نے طالبان کو خاموشی کے ساتھ چھوٹے ہتھیار فراہم کیے۔
نیویارک ٹائمز نے کہا ہے کہ اس بارے میں مختلف نظریات موجود ہیں کہ روس حملوں میں طالبان کی مدد کیوں کرے گا۔ ان نظریات میں ایک یہ ہے کہ روس امریکہ کو افغانستان میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔
اخبار کے کے مطابق یہ بھی ہو سکتا ہے کہ روسی یونٹ شام میں روس کے لڑنے والوں کی امریکہ کے ہاتھوں ہلاکت کا بدلہ لینا چاہتا ہو۔ شام میں روس صدر بشارالاسد کی حکومت کی مدد کر رہا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے مزید کہا کہ افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں کی قیادت جی آر یو نامی یونٹ کر رہا ہے۔ اس یونٹ پر کئی عالمی واقعات میں ملوث ہونے کا الزام ہے جن میں 2018 میں برطانیہ میں کیمیائی حملے بھی شامل ہیں جن میں روس میں پیدا ہونے والے ڈبل ایجنٹ سرگئی سکریپل زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہو گئے تھے۔
دوسری جانب امریکی انٹیلی جنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ روس نے 2016 کے صدارتی الیکش میں ڈونلڈٹرمپ کی مدد کی تھی۔ اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا کو بھی استعمال کیا گیا تھا۔ تاہم ٹرمپ نے ان نتائج پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے روسی صدر ولادی میر پوتن سے زیادہ پرجوش تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی حالانکہ ان کی انتظامیہ نے یوکرائن میں کارروائیوں پر روس پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔