کبھی رنگ برنگی جیولری، تو کبھی بچیوں کی فراکوں کی سلائی، نہیں تو فیڈر کور اور سوئی دھاگے سے بننے والی درجنوں دوسری آرائشی چیزیں۔
یہ ہیں کراچی کے علاقے نیو کراچی کی ماہر کاریگر شمیم بانو، جو تین دہائیوں سے اپنے ہنر کی کمائی کھا رہی ہیں۔ وہ جو کچھ بناتیں وہ ہاتھوں ہاتھ نکل جاتا۔ تیار سامان مڈل مین لے جاتا، کچھ دن یا ایک آرڈر کی تکمیل کے فوراً بعد دوسرا آرڈر مل جاتا، جس سے گزر بسر ہو جاتی۔
تاہم اب شمیم بانو بھی معاشی حالات کی تنگی سے پریشان ہیں، رہی سہی کسر کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ اور اس میں نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے پوری کر دی۔
شمیم بانو کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران انہیں ایک ایک درجن چھوٹی بچیوں کے فراکوں کی سلائی کا آرڈر ملا، جیسے مکمل کرنے کے لیے درجن بھر فراک کی سلائی 120 روپے ملی، یعنیٰ فی فراک کی سلائی کی قیمت 10 روپے دی گئی جبکہ مارکیٹ میں اسی ایک فراک کی قیمت 250 روپے تھی۔
یہ مزدور کا استحصال سہی لیکن چونکہ معاشی حالات اچھے نہیں تو گھر آئے کام کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مزید کام نہ ملنے کے باعث شمیم اب ایک سکول کی صفائی ستھرائی کر کے اپنا اور اپنے گھر والوں کا معاشی سہارا بنی ہوئی ہیں۔
گھر سے کام کرنے والی خواتین کی تنظیم ’ہوم بیسڈ ویمن ورکرز فیڈریشن‘ یا ایچ بی ڈبلیو ڈبلیو ایف کی سیکریٹری جنرل زہرہ خان کا کہنا ہے کہ ’ٹھیکے داری نظام نے کروڑوں مزدوروں کو غلاموں سے بدتر کر رکھا ہے۔ گھروں میں بیٹھ کر کام کرنے والے ورکرز کا پتہ چلانا مشکل ہے کہ ان کی تعداد کتنی ہے اور وہ کس نوعیت کے کام کر کے اپنا اور اپنے گھر والوں کا معاشی سہارا بنے ہوئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زہرہ کہتی ہیں کہ ’ایک محتاط اندازے کے مطابق انہی نامعلوم مزدوروں کے ذریعے ٹیکسٹائل سیکٹر میں بہت بڑے پیمانے میں معیشت کو سہارا پہنچتا ہے۔ سندھ میں ہوم بیسڈ ورکرز کا کوئی مربوط ڈیٹا نہیں لیکن کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تعداد 30 لاکھ سے 50 لاکھ ہے۔
'یہی ووکرز اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ان ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے کہیں برسوں کی محنت کے بعد سندھ اسمبلی میں 2018 میں ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ منظور ہوا، جس کے تحت تشکیل دی جانے والی کونسل کا قیام کرونا وائرس کی پیش نظر سست روی کا شکار ہے۔ کونسل کے ذریعے ہوم بیسڈ ورکرز کے ڈیٹا کو اکٹھا کیا جائے گا، جس کے بعد گھروں سے کام کرنے والے ملازمین کے کارڈ کا اجرا ممکن ہو سکے گا۔‘
کراچی میں 2009 میں انیسہ یونس نے شوق کے تحت ایک سلائی مشین سے کپڑوں کی ڈیزائینگ اور سٹیچنگ کا کاروبار کیا جو آہستہ آہستہ پھیلتا گیا۔ انیسہ کہتی ہیں کہ ’اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہم نے نمائش میں حصہ لیا، چاہے وہ نمائش کامیاب ہو یا ناکام۔ اس کی وجہ سے ہمارے کلائنٹس میں اضافہ ہوا۔‘
اسی دوران شوہر کی ملازمت میں مسائل آنے لگے تو شوق سے شروع ہونے والا کام انیسہ کے گھر کے معاشی سہارا بھی بنا۔ انیسہ کہتی ہیں کہ کپڑوں کا کام چند سال پہلے بری طرح سے نقصان کا شکار ہوا جہاں بڑے ٹیکسٹائل سیکٹر میں زوال آیا، وہیں چھوٹے ڈیزائنرز بھی بری طرح سے ناکام ہوئے۔
ان کا کہنا ہے ’ایک چھوٹا ڈیزائنر 10 سے 15 فی صد بھی بمشکل منافع کما سکتا ہے لیکن بڑے برانڈ اپنے نام پر منافع بخش کاروبار کر رہے ہیں۔‘
انیسہ اب ڈیزائنر جیولری پر کام کر رہی ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن کاروبار سے منسلک ہیں۔ انہوں نے کہا، ’آن لائن کام کا سب سے بڑا نقصان ڈیزائن کے چوری ہونے کا ہوتا ہے، جیسے ہی کوئی ڈیزائن مارکیٹ میں آتا ہے، چند روز میں اس کی کاپی تیار ہو جاتی ہے۔‘
انیسہ یہ بھی کہتی ہیں کہ آن لائن شاپنگ پر ابھی بھی لوگوں کا بھروسہ کم ہے۔ اسی کی بنیادی وجہ وہ دھوکہ ہے جو مختلف ویب سائٹس کے ذریعے دیا گیا، لیکن اس کا خمیازہ ان ورکرز کوبھگتنا پڑ رہا ہے جو معیار پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ 24 گھنٹے انٹرنیٹ پر مصروف رہنے والی انیسہ ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ کے بارے میں لاعلم ہیں۔ وہ نہیں جانتیں کہ اس نئے قانون سے مزدوروں کو کیا سہولیات مل سکیں گی۔
ہوم بیسڈ ورکرز کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے والی مزدور کارکن سائرہ بانو نے بھی چھ برس کی عمر سے ہی چاول کی بوریاں بنائیں۔ چونکہ ان کی والدہ اور بڑی بہنیں یہ گھر میں رہتے ہوئے کرتی تھیں تو انہوں نے آنکھ ہی ایسے ماحول میں کھولی جہاں بس کام ہی کام کیا اور اس کام کے عوض معمولی رقم ملی۔ ٹھیکے دار سے جو آرڈرز ملتے وہ مقررہ کردہ وقت تک تیار کرنے میں وہ بھی اپنے گھر والوں کا ساتھ دینے لگیں۔
سائرہ کا کہنا ہے کہ ’پہلے اتنی آگاہی نہیں تھی کہ ہمارا استحصال کیا جاتا تھا۔ ہم سے کم سے کم قیمت پر برانڈز کی چیزیں بنوائی جاتیں اور مزدور کو یہ علم تک نہ ہوتا کہ وہ کتنے بڑے برانڈ کے لیے کام کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ مارکیٹ میں ان کے ہاتھوں سے بنائی چیزوں کی قیمت کیا ہے۔‘
لیکن اب وہ اپنے علاقے اورنگی ٹاون سمیت نیو کراچی کی ہوم بیسڈ ورکرز کو ٹھیکے دارانہ نظام کے خلاف آگاہی دیتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ اس طرح نہ کوئی ٹھیکے دار دھوکہ دہی کرتا ہے نہ کام کروا کر پیسے دیے بنا بھاگ جاتا ہے۔
تمام تر آگاہی کے باوجود گھر سے کام کرنے والے مزدوروں کا استحصال اب بھی جاری ہے۔ مثلاً حیدرآباد میں چوڑی بنانے والے مزدوروں کا پورا پورا خاندان اسی کام سے وابستہ ہوتا ہے۔ مسلسل گرم لو کے سامنے کام کرنے سے سینہ اور آنکھیں متاثر ہوتی ہیں لیکن بدلے میں اجرت نہ ہونے کے برابر ملتی ہے۔
یہی حال اینٹیں اٹھانے والے مزدور، اگربتی اور موم بتی بنانے والے مزدور اور مسالہ پیسنے والے مزدور کا بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح اچار بنانے والے مزدور ہو یا کپڑوں پر رنگ کرنے والے مزدور ان کو صحت کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے بدلے معاوضہ انتہائی کم ملتا ہے۔
سیکریٹری لیبر سندھ رشید سولنگی کا کہنا ہے کہ ’سارک ممالک میں سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں ہوم بیسڈ ورکرز کا قانون پیش ہوا اور اسمبلی میں اسے منظور کر لیا گیا۔ جب ورکر کی تعریف کی جاتی ہے تو اس میں آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اسی قانون کے تحت ہوم بیسڈ ورکرز کو سوشل سکیورٹی کے ذریعے تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی جو ان کا بنیادی حق ہے، جسے صحت، پینشن، بیٹی کی شادی کے لیے معاوضہ وغیرہ۔
’صحت کے لیے سندھ بھر کے پانچ ہسپتالوں میں ان ورکرز کا علاج اور مفت ادوایات کی فراہمی شامل ہے، جبکہ 43 ڈسپنسریوں سے بھی گھروں میں کام کرنے والے ورکرز علاج کرا سکیں گے۔ اس قانون کے تحت لگ بھگ سندھ بھر میں 30 لاکھ سے زائد گھروں سے کام کرنے والے ورکرز کو فائدہ ہو گا۔ جبکہ کتنے ورکرز کیا کام کررہے ہیں اور وہ معاشی ترقی کو کیسے سہارا دیے ہوئے ہیں یہ سب بھی اسی قانون کے اجرا کے بعد معلوم ہو سکے گا۔‘
رشید سولنگی کا کہنا ہے کہ سال 2020 کے اوائل سے اس کی رجسٹریشن کا کام کا آغاز کا منصوبہ تھا لیکن کرونا کی صورت حال کی وجہ سے اب ممکن ہے کہ جولائی کے آخر تک رجسٹریشن کا عمل مکمل کر لیا جائے، جس سے گھروں میں کام کرنے والے ورکرز کے بہت سے معاشی مسائل اور ان کے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں مدد کی جا سکے گی۔
ہوم بیسڈ ورکرز کارڈز کے اجرا اور اس کی آگاہی کے سلسلے میں تشہیری مہم کا منصوبہ بھی موجودہ صورت حال کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے، جس کے بعد امید ہے کہ بہت سے ایسے مزدوروں کو بھی اس قانون کا علم ہو سکے گا اور وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکیں گے۔
شیمم بانو ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے طویل جدوجہد سے مطمئن ہیں۔ انہیں اس کا صلہ ملے گا یا نہیں لیکن اس قانون کے نافذ ہونے سے لاکھوں مزدروں کو ان کا بنیادی حق مل جائے گا۔