نواز شریف کیوں واپس آئیں؟ مریم نواز کیوں بولیں؟

دو سال میں اس ملک کو اس نہج پر لانے کے بعد کبھی میاں نواز شریف کو منانے کا ٹاسک شہباز شریف کے سپرد کیا جاتا ہے، کبھی مولانا فضل الرحمن سے مدد کی درخواست کی جاتی ہے، کبھی میڈیا پر آہ بکا شروع ہو جاتی ہے۔

سیاست دان کو ملک کا مفاد عزیز ہوتا ہے مگر یاد رکھیں سیاست دان انسان بھی ہوتا ہے(اے ایف پی)

اس اذیت ناک دور میں میڈیا پر ایک انوکھی بحث چل نکلی ہے۔ لوگ جذباتی ہو کر نواز شریف کو پیغام دے رہے ہیں کہ اس دور ابتلا میں جب معیشت کا حال دگرگوں ہے، جب لوڈ شیڈنگ کا آغاز ہو چکا ہے، جب دہشت گردی پھر سے میری سرزمیں کو چاٹنے کے درپے ہے۔

ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک پاکستان کا بڑا لیڈر عوام کا درد محسوس نہ کرے، غریب عوام کی داد رسی نہ کرے، معشیت کی ڈوبتی نیا کو سہارا نہ دے، تو میاں صاحب غصہ جان دیو، اب واپس آئیں اور قوم کی کشتی کو کنارے لگائیں۔

دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ آپ کی وطن سے دوری سے یہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ آپ کی غیرحاضری سے یہ حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ اس موقعے پر آپ آئیں تو سیاست میں کچھ بہتری ہو، معیشت میں کوئی جان پڑے۔

یہ نقطہ نظر یک طرفہ ہے۔ اس میں نواز شریف کو الزام تو دیا گیا ہے لیکن ان کے ساتھ جو ہوا اس کا احساس نہیں کیا گیا۔ اس نقطہ نظر میں جذباتی اپیل تو کی گئی ہے مگر حالات کی حقیقت کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔

ایک لمحے کو سوچیے کہ نواز شریف کیوں واپس آئیں؟ مریم نواز کیوں اپنی چپ توڑیں؟ دو سال میں اس ملک کو اس نہج پر لانے کے بعد کبھی میاں نواز شریف کو منانے کا ٹاسک شہباز شریف کے سپرد کیا جاتا ہے، کبھی مولانا فضل الرحمٰن سے مدد کی درخواست کی جاتی ہے، کبھی میڈیا پر آہ بکا شروع ہو جاتی ہے۔ بس ایک دفعہ میاں صاحب ہماری داد رسی کر دیں اس مشکل سے نکال دیں پھر سب اچھا ہو جائے گا۔ آل اوکے کی رپورٹ ہوگی۔

سوچیے تو سہی نواز شریف اس ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم بنے۔ تینوں دفعہ معیشت میں قدرے بہتری ہوئی۔ تینوں دفعہ ترقیاتی منصوبے لگے، تینوں دفعہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دیکھا جانے لگا تھا۔ تینوں دفعہ روزگار کے موقعے بڑھے۔ تینوں دفعہ ملک سے بھوک ختم ہوئی اور تینوں دفعہ ملک کے منتخب وزیر اعظم کو دھتکار کے نکال دیا گیا۔

 کبھی اس کے لیے عدلیہ کا سہارا لیا گیا۔ کبھی پی ٹی وی کو فتح کیا گیا۔ کبھی کرپشن کا ڈھول بجایا گیا۔ نواز شریف کبھی قید میں رہے، کبھی ملک بدر کر دیے گئے، کبھی تذلیل کی گئی، کبھی توہین کی گئی۔

سیاست دان کو ملک کا مفاد عزیز ہوتا ہے مگر یاد رکھیں سیاست دان انسان بھی ہوتا ہے۔ اس کو بھی دکھ ہوتا ہے۔ اس پر بھی رنج کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ وہ بھی منتقم المزاج ہو جاتا ہے۔ جس نواز شریف کو آج وطن واپس نہ آنے کا الزام دیا جا رہا ہے یہ وہی نواز شریف ہے جو جب اس ملک میں بےگناہ جیل میں قید تھا تو دم توڑتی اہلیہ سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جیل میں ڈاکٹر میسر نہیں ہوا۔ دوائی نہیں دینے دی گئی۔ کمرے سے اے سی اتار دینے کا امریکہ میں وزیر اعظم نے بقلم خود دعویٰ کیا۔

یہی نواز شریف جس سے آج رابطے کیے جا رہے ہیں، جس کو آج منانے کی کوشش کی جا رہی ہے اسی نواز شریف کے سامنے اس کی بیٹی کو گرفتار کیا گیا۔ اس بیٹی کی عزت پامال کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر غلیظ ٹرینڈ چلائے گئے۔ اسی بیٹی کی بیمار ماں کی علالت کوڈراما کہا گیا۔ اسی بیمار خاتون کے ہسپتال کے کمرے میں غنڈوں نے گھس کے یہ تصدیق کرنا چاہی کہ مر گئی ہیں یا ابھی سانسیں باقی ہیں۔

یہ وہی نواز شریف ہے جس پر پاکستان کے میڈیا نے دن رات کرپشن کے بہتان لگائے۔ اور عدالت میں ایک پائی کرپشن بھی ثابت نہ ہو سکی۔ ایک اقامے اور بیٹے سے تنخواہ لینے کے الزام میں اس کو بےعزت کر کے وزارت عظمی سے چلتا کر دیا۔

اب جو میڈیا نواز شریف اور مریم نواز کو خاموشی کے طعنے دے رہا ہے یہ وہی میڈیا جو نواز شریف کا ایک بیان اور مریم نواز کی تصویر تک نہ چلا سکا، پریس کانفرنس کی خبر نہ دے سکا۔ ایک بھی سچائی پر مبنی پروگرام نہ کر سکا۔ ایک بھی حقائق پر مبنی رپورٹ نہ چلا سکا۔ ایک بھی حق گو اینکر کو نوکری پر نہ رکھ سکا۔

جس عوام کی زبوں حالی کے طعنے دیئے جا رہے ہیں یہی لوگ کوٹ لکھپت کے باہر مجمع اکھٹا نہ کر سکے۔ اپنے لیڈر کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر کوئی ملک گیر تحریک شروع نہ کر سکے ۔ اڈیالہ جیل کے باہر ایک بھی مظاہرہ نہ کرسکے۔

اب نواز شریف کو شرم دلانے سے پہلے موجودہ حکومت کو لانے والوں کو شرم دلانے کا مقام ہے۔ اب معیشت کی بدحالی کا رونا رونے والوں کو معیشت تباہ کرنے والوں کو شرم دلانے کا مقام ہے۔

یہی ملک تھا یہی معیشت تھی یہی عوام تھے۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا۔ مگر کچھ قوتوں کو سب کچھ اچھا قبول نہیں ہوتا۔ وہ ایک پاؤ گوشت کے لیے گائے ذبح کر دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ وہ ذاتی مفاد کی خاطر ملک برباد کرنے میں دیر نہیں کرتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے تمام لوگوں اور قوتوں کو عمران خان ہی وزیر اعظم سجتا ہے۔ یہ تبدیلی لانے والوں کا انتخاب تھا۔ اب اپنے اس انتخاب کو نبھایے۔ ملک کی بربادی کا الزام قبول کیجے۔ اب بین الاقوامی سطح پر اس توہین کو برداشت کیجئے۔ اب ایک صفحے پر ہونے کے مزے لوٹیے۔ اب  نادیدہ کرپشن کے خلاف جہاد اور موجودہ کرپشن سے آنکھیں موندیئے۔

اس ملک کی جو اب حالت ہے اس میں تبدیلی لانے والے قصور وار ہیں۔ اب وہ پہلے اپنا قصور قبول کریں پھر مصالحت کی طرف رجوع کریں۔

اب نواز شریف کے پاس خفیہ وفد بھیجنے کی بجائے، اب نواز شریف کو غریب عوام سے دوری کے طعنے دینے کی بجائے، اب نواز شریف کو معیشت کی بدحالی کا موجب ٹھہرانے کی بجائے، ایک دفعہ تبدیلی لانے والوں کے گریبان میں جھانکیے۔

تاریخ نے یہی سبق سکھایا ہے کہ اس ملک کے ساتھ جس نے وفا کی ہم نے اسے غدار بنا دیا۔ اس ملک پر جس نے احسان کیا ہم نے اس پر کفر کا فتوی لگا دیا۔ اس ملک کے ساتھ جس نے محبت کی ہم نے انہیں کرپٹ کہلا دیا۔

تو جناب یہ معیشت اگر خراب ہے تو اس میں قصور نواز شریف کا نہیں تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کا ہے۔ غریب اگر مفلسی کی چکی میں پس رہے ہیں تو اس میں قصور نواز شریف کا نہیں نیا پاکستان بنانے والوں کا ہے۔ لوڈ شیڈنگ اگر ہو رہی ہے تو اس میں قصور نواز شریف کا نہیں۔ بین الاقوامی طور پر اگر ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے تو اس میں قصور نواز شریف نہیں اس ملک کی خارجہ پالیسی پر قابض لوگوں کا  ہے۔ اب نواز شریف کو وطن واپس نہ آنے کے طعنے نہ دیجئے۔ اب مریم نواز شریف کو خاموش رہنے پر جذباتی نہ کیجئے۔

اب اسے وہی قوتیں سنبھالیں جو انہیں لائی تھیں کیونکہ وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ اب واحد چوائس وہی ہیں۔ بس یہ یاد رکھیے کہ یہ چوائس پاکستان کے عوام کی نہیں نئے پاکستان کے ناقص معماروں کی ہے اور وہ اس چوائس کے ہر لحاظ سے مستحق ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ