اس کرہ ارض پر ایسا کوئی دوسری ملک ہے جس کے ساتھ امریکہ اس حد تک مشترکہ حکمت عملی اپناتا ہے؟ برطانیہ کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘یا پھر دوسری جنگ عظیم میں نئی دنیا کا پرانی دنیا کو بچانے کے لیے آنا بھول جائیں۔ موجودہ وقت میں محض ایک خصوصی تعلق ہے جو سب پر بھاری ہے ۔ اور ہم سب کو معلوم ہے کہ وہ کیا ہے۔ یروشلم کو مکمل طور پر اسرائیلی اثاثہ قرار دینا اور اب گولان کو اسے دینا ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سلامتی کونسل کی قرار داد 242 میں ’امن کے بدلے زمین‘ کے وعدے کی بنیاد کمزور کر دی ہے۔ اور اسرائیل خوش ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ بنیامین نتن یاہو کے دوبارہ انتخاب کے لیے ایک تحفہ ہے۔
یہ سچ ہے کہ مشرق وسطی میں ’قیام امن کا سلسلہ‘ کئی برس قبل فوت ہوچکا ہے۔ لیکن ٹرمپ کی جانب سے گولان پر اسرائیلی قبضے کی توثیق سے وہ تمام دستاویزات، وہ پیراگراف جو اسرائیل اور فلسطینیوں کی دو ریاستوں کے حل کی بنیاد تھے جن کی مدد سے ہماری نسل کے سب سے طویل فوجی قبضے کا خاتمہ ممکن ہوسکتا تھا پھاڑ دیئے ہیں۔ اور اب امریکہ نے دنیا کی آخری نوآبادیاتی جنگ میں کھل کر، کھلے دل کے ساتھ اسرائیل کی حمایت کر دی ہے۔ اور اگر اب گولان ایرانی دھمکی کی وجہ سے اسرائیل کا حصہ ہے، تو جنوبی لبنان بھی اس کا حصہ بن سکتا ہے۔ کیا حزب اللہ بھی ایرانی ’خطرہ‘ نہیں ہے؟ اور ہم کتنا جلد امریکی حمایت کے بعد اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے پر قبضہ کرسکتا ہے؟
اوپر کی تحریر کے بارے میں دو باتیں نوٹ کریں۔ پہلے تو یہ کہ کتنی مرتبہ مجھے کوٹیشن کا نشان استعمال کرنا پڑا ہے جن کی معمول کے دوران ضرورت نہیں رہی۔ اور دوسرا کہ کیسے شام کا ذکر ایک مرتبہ بھی نہیں کیا۔ 1967 میں شام کے ہاتھوں سے گولان کے جانے کے بعد اتنا عرصہ بیت گیا اور یہ اتنی عام بات بن گئی ہے کہ اس کی اصل ملکیت ختم ہوگئی ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کی اپنی ہی ’اینیکشیشن‘ کو تسلیم کرنا، جسے دنیا میں کہیں بھی نہیں مانا گیا ایسے ہی ہے جسے ہم خفیہ طور پر تسلیم کرتے تھے اسے انہوں نے تسلیم کر لیا۔ کہ شام کی زمین کی چوری اب بالکل قانونی ہے۔ بی بی سی کی ویب سائٹ پر ٹرمپ کی گولان پر شرارت کی کوریج کی کہانی جس کا عنوان ’اس کا کیا مطلب ہے‘ میں شام کا ذکر پانچویں پیراے میں آیا۔
میڈیا نے اپنے بذدلانہ اسرائیل کے لیے عزت میں اور اس کے اسے ’یہودی مخالف‘ کرنے کے لقب سے بچنے کی وجہ سے کئی جواب دینے ہیں۔ جب کولن پاول نے امریکہ محکمہ خارجہ سے کہا کہ وہ اپنے سفارت خانوں کو مغربی کنارے کو ’مقبوضہ‘ کی جگہ ’متنازع‘ کہیں، تو امریکہ میڈیا نے بغیر کسی چوں چراں کے اسے تبدیل کر دیا۔ اور پھر جب محکمہ خارجہ نے چند ہفتے قبل اچانک گولان کو ’اسرائیلی مقبوضہ‘ کی بجائے ’اسرائیلی زیر انتظام‘ کہا تو ہمیں سب معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ شکر ہے جیسا کہ میں اکثر کہتا ہوں ان چند بہادر اسرائیلی صحافیوں – اور انتہائی کم مگر قیمتی کارکنوں اور سیاستدانوں کا – جو اس پاگل پن کے خلاف بولتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے سامنے مکمل سر جھکانے والے حالات میں یہ زبانی تبدیلی نا تو اتنی خفیف اور نا ہی تعجب انگیز ہے لیکن مشرق وسطی کے لوگوں کے لیے خطرناک ہے۔ گولان کی دستاویز پر ٹرمپ کے دستخط پر نتن یاہو کے ردعمل سے میں چونکا جس میں انہوں نے کہا کہ ’یہودیوں کی گولان میں جڑیں ہزاروں سال پرانی ہیں۔‘ درست۔ مگر مجھے یاد آیا کہ 1982 میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے ہفتوں کے اندر اسرائیلی فوجی اور ’سول افیرز‘ افسر جنوبی لبنان میں شعیہ اور مسیحی دیہات میں گئے اور سوالنامے جاری کئے۔ میں نے انہیں یہ کرتے دیکھا۔ یہ سوالنامے طویل اور پیچیدہ تھے۔ لبنانیوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہاں ان کی زمین پر کوئی یہودی آثار قدیمہ ہیں؟ کیا ان کی قدیم عمارتوں پر گذشتہ صدیوں کے یہودی آبادی کے کوئی آثار موجود ہیں؟ کیا کسی گاوں یا پہاڑی کا ابرانی نام ہے؟ وہ صور، صداون اور قانا کے تکون میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔
یقینا یہاں کئی یہودی باقیات ہیں۔ دروز شوف کے پہاڑوں پر آباد دیہات میں مجھے دروازے کی پتھروں کی فریموں پر قدیمی نقوش دور کے پائے تھے۔ اسرائیلیوں نے ان باقیات کو نوٹ کیا، جو وہاں کے باسیوں نے دوستانہ فوجیوں کو بتائے تھے۔ یقینا اس نے ایک روایت کی بنیاد ڈال دی۔ اس وقت کیا ہوگا اگر اگلے لبنانی جنگ کے بعد اسرائیل جنوبی لبنان پر قبضہ کرنے کی بجائے اسے ضم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے کیونکہ ’اس خطے میں یہودیوں کی ہزاروں سال پرانی جڑیں‘ موجود ہیں۔
ہاں مجھے معلوم ہے کہ اسرائیل کو ایسا کرنے کے لیے حزب اللہ کو شکست دینا ہوگی – ایک ناممکن بات کیونکہ حزب اللہ ممکنہ طور پر لبنانی سرحد سے اسرائیل کا رخ کر رہا ہو گا۔لیکن ان اٹھارہ سالوں کے اپنے تقریبا تمام جنوبی لبنان پر قبضے کے دوران میڈیا نے کبھی بھی اسے ’اسرائیلی مقبوضہ‘ علاقہ نہیں کہا۔ اسے ہمیشہ ’اسرائیل کے زیر انتظام‘ کہا گیا اور اس وسیع اسرائیلی مقبوضہ علاقے کو اس نام سے یاد نہیں کیا گیا۔ درحقیقت اسے ہمیشہ اسرائیل کا ’سکیورٹی زون‘ قرار دیا گیا۔ ہم صحافیوں نے پہلے ہی انضمام کی بنیاد رکھ دی ہے جو ابھی ہونی ہے۔
لیکن یہ لبنان کی نہیں بلکہ ٹرمپ کی کہانی ہے۔ پارلیمان کی ماں میں ڈرامے کو دیکھتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہوتی ہے ٹرمپ کے وائیٹ ہاوس کے بارے میں بات کرتے ہوئے۔ یہ بین الاقوامی اینکشیشن کی اور مغرب کی زمین کی چوری کے حمایت کی بات ہے۔ اگر اس میں پوتن یا روس ملوث ہوتا تو بات اور ہوسکتی تھی۔ اور یہ اس حقیقت کے بارے میں ہے کہ امریکہ کی مشرق وسطی میں خارجہ پالیسی اسرائیل سے جڑی ہے۔ کم از کم بیس برس قبل میں نے امریکہ اور اسرائیل کی حکومتوں کے اس خطے سے متعلق پالیسی بیانات جمع کیے، انہیں گڈمڈ کیا ۔ اور ایک ساتھی سے انہیں اصل ترتیب میں لانے کے لیے کہا۔ وہ اس وقت اور اب بھی ناممکن ہے۔
امریکہ میں یہودی مخالفت کے بارے میں غلط مفروضوں سے میں تھک چکا ہوں۔ امریکی کانگرس کو دیکھیں جب اس سے نتن یاہو خطاب کر رہے ہوں۔ امریکی نمائندگان نے 2011 میں 29 بار اور 2015 میں 39 مرتبہ اٹھ بیٹھ کر ان کے لیے تالیاں بجائیں۔ میں ہمیشہ امریکی ایوان کی کارروائی کو مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتا ہوں۔ یہ مجھے صدام حسین کی یاد دلاتی ہیں جب اسے اسے کی محبوب عوام کھڑے ہوکر داد دیتی تھی۔ یہ رویہ بشر الاسد کے لیے بھی تھا، جو اب بھی ہے۔ میں دیکھ سکتا ہوں کہ کیوں مشرق وسطی کے رہنما عرب دنیا اور امریکہ میں مماثلتیں دیکھتے ہیں۔
اور میں یہ بھی سمجھ سکتا ہوں کہ کیوں کانگرس متوجہ ہو جاتی ہے جب ٹرمپ کی آواز نائب صدر مائیک پینس کہتے ہیں کہ ’ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ ان کا مقصد ہمارا مقصد ہے، ان کی روایات ہماری روایات ہیں اور ان کی جنگ ہماری جنگ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واقعی؟ امریکہ جس نے برطانیہ کے خلاف سامراجی جنگ لڑی، کیا واقعی اسرائیل کے سامراجی عزائم مقاصد – مغربی کنارے میں زمین اینٹھنا اور سامراجی توسیع میں - اس کے ساتھ ہے۔ کیا امریکی واقعی اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں اور لبنان کی مسلسل، ظالمانہ بمباری میں ساتھ ہے اور ان جنگی جرائم کی منظوری دیتا ہے۔ اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر امریکیوں نے صدام حسین سے جنگ کیوں کی؟ ہم شام میں بمباری کیوں کر رہے ہیں؟
انیکشیشن کی تاریخ تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ کی جانب سے ہوائی کے انضمام کی کیونکہ اسے بحری اڈا چاہیے تھا اور اس کی نیو میکسیکو، ٹیکسس اور ایریزونا کے انضمام میں۔ میں پوتن اور کرائمیا کی بات ہی نہیں کر رہا ہوں۔ نا میں انیکسشینز کا تقابلی جائزہ لے رہا ہوں۔ اسرائیلی نازی نہیں ہیں اور امریکی روسی نہیں اور روسی اسرائیلی نہیں۔ لیکن ایسے جائزہ خود ممالک استعمال کرتے ہیں جب وہ انضام کا فیصلہ کرتے ہیں یا اسے جواز دیتے ہیں۔ ان میں سے اکثر نسلی جڑوں اور عسکری ضرورت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
آج ہمیں دوبارہ پرانا جملہ ’زمینی حقائق‘ سیکھنے چاہیں۔ اسرائیل نے یروشلم اور گولان کا 1980 اور 1981 میں انضمام کیا۔ تمام دنیا اور کئی اسرائیلیوں نے اس کی مذمت کی تھی لیکن اب ٹرمپ نے ’امن کے لیے زمین‘ کی کوشش کو آدھا کر دیا ہے۔ واشنگٹن نے غیرقانونی قبضے، علاقائی چوری کی توثیق کر دی ہے۔ اور کیوں نہیں جب کانگرس اسرائیل کی مداح ہے۔
اس پر اتنا ابال کیوں؟ اسرائیل کے گولان پر قبضے کو تسلیم کرنے سے ٹرمپ نے بس اتنا تسلیم کیا ہے کہ اسرائیل نے امریکہ پر قبضہ کر لیا ہے۔