پرکوسپ، چترال سے تعلق رکھنے والے ایک 21 سالہ ہونہار طالب علم افتخار علی کرونا کی وجہ سے آن لائن کلاسز کے سلسلے میں رشتہ دار کے ہاں کچھ عرصے سے مقیم تھے۔ ہفتہ 4 جولائی 2020 کو اس نے اچانک گلے میں رسی ڈال کر ’خود کشی‘ کر لی۔
افتخار علی پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجنئیرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنس میں بی ایس کا طالب علم تھا اور ایکسچینچ لرننگ پروگرام کے تحت امریکہ سے دو ماہ کا کورس مکمل گذشتہ دنوں پاکستان واپس آیا تھا۔
لاش پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئی جبکہ پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔
میں نے مرحوم کی زندگی کے بارے معلومات حاصل کرنے کے لیے اس کے دوست عامر نواز سے رابطہ کیا۔ دونوں دو سال سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گاؤں کی سطح پر بننے والی چھوٹی فلم (زوال) میں کام کرنے والے افتخار علی کو دوست ذوال بھائی کے نام سے پکارتے تھے۔ ’وہ ہر وقت ہشاش بشاش، خیال رکھنے والا، یاروں کا یار تھا۔ وہ ایسا لڑکا جس سے جو کوئی بھی ایک بار ملتا تو اس کا گرویدہ بن جاتا۔‘
عامر نے بتایا کہ مرحوم کو کھیلوں خاص کر کرکٹ کا بہت شوق تھا۔ ’کبھی کبھی اداس ہوتا تھا تو پوچھنے پر کبھی لب کشائی نہیں کرتا تھا۔ شاید اس خاموشی کی وجہ اس کے دل پر کوئی بہت بڑا بوجھ تھا جو وہ برداشت نہ کر سکا۔‘
’وہ مضبوط اعصاب کا مالک تھا اور ہمارے کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ زوال بھائی ایسا کچھ کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ مرحوم کسی قسم کا کوئی نشہ بھی نہیں کرتا تھا۔ ’اس کا ہنستا کھلتا چہرہ تھا۔ بس دو دن پہلے چترال گول میں سیر کے لیے گئے تھے۔ ان کے تصاویر آپ فیس بک پر دیکھ سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لڑکے کے ایک رشتہ دار اور ہمسایہ محمد صابر خان کے مطابق افتخار بہت سلجھا ہوا بچہ تھا اور اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ’ان کے والد اپنے بچے کو لے کر مستقبل کے لیے بہت پرامید تھے۔‘
اس سلسلے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد سعید کا کہنا تھا کہ اس ’خودکشی‘ کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں یعنی دماغ میں کیمیائی تبدیلی، نفسیاتی مسائل اور معاشرے میں پیدا ہونے والے مسائل۔ ’بچوں میں زیادہ تر خودکشیاں معاشرے میں پیدا شدہ مسائل کی وجہ سے ہوتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فرض کریں بچے کو پڑھائی میں کوئی مسئلہ ہے یا کوئی اور بات ہے جس کے بارے میں وہ کسی سے اظہار نہیں کر سکتے۔ ’اس کی ایک وجہ بچے اور والدین کے درمیان فاصلے کا بڑھ جانا ہے۔‘
اس مسئلے پر قابو پانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنا چاہیے کہ جس سے بچے اپنے مسائل والدین کے ساتھ شیئر کر سکے۔ ’بچوں کی تربیت ایسی کریں کہ وہ آپ سے خوفزدہ نہ ہوں۔‘
چترال میں کافی عرصے سے نوجوانوں میں خودکشیوں کا خطرناک رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ بعض اسے تعلیمی مسائل سے جوڑتے ہیں تو بعض معاشرتی رویوں کو اس کا ذمہ دار ٹھراتے ہیں۔
خود کشیوں کے پیچھے محرکات جاننے اور ریسرچ کے حوالے سے ڈی ایچ او چترال محمد حیدر الملک کا کہنا ہے کہ حکومت چترال میں ذہنی صحت کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے اور نہ ابھی تک کسی نے اس سلسلے میں تحقیق کی ہے۔ ’بس کچھ صحافی آتے ہیں اور انٹرویو کر کے چلے جاتے ہیں۔‘
آ غاخان ہیلتھ سروس پاکستان، چترال کے علاقائی سربراہ معراج الدین کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں بونی اور گرم چشمہ میں کام ہو رہا ہے جہاں مریضوں کا رابطہ ماہر نفسیات سے کرایا جاتا ہے۔ ’اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر زیادہ تر مریض صحت یاب ہوتے رہتے ہیں جو میڈیا میں نہیں آتا۔‘
اس سال جون سے لے کر اب تک یہ خودکشی کا چوتھا واقعہ ہے۔ چترال میں خود کشیوں سے متعلق ڈیٹا حاصل کرنے کی غرض سے ڈی پی او آفس اپر چترال سے رابطہ کیا لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ ایسا لگا کہ اس حوالے سے کوئی مربوط نظام موجود نہیں ہے۔