پاکستان کے جنگ اور جیو میڈیا گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن 115 روز سے قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست میں ہیں اور34 سال پرانے ایک غیرقانونی پلاٹس الاٹمنٹ کیس میں آج کل ان کی درخواست ضمانت پر سماعت جاری ہے۔
منگل کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے میر شکیل کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت کی۔اس موقعے پر میر شکیل کے وکیل امجد پرویز نے عدالت میں دلائل دیے جبکہ نیب نے اس کیس کا ریفرنس عدالت میں جمع کرایا۔
بینچ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سماعت کل تک ملتوی کردی۔نیب ترجمان کے مطابق دوران حراست ملزم سے ضروری تفتیش مکمل ہوچکی، ریفرنس دائر کردیاگیاہے اور رپورٹ عدالت میں پیش ہوچکی ہے، اب عدالت کا اختیار ہے کہ وہ انہیں ضمانت پررہاکرے یا جوڈیشل ریمانڈ میں مزید توسیع کر دے۔
آج سماعت کے دوران چینل 24 کے مالک محسن نقوی، جیو نیوز کے اینکر حامد میر، سہیل وڑائچ ودیگر سینیئر صحافی اور مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ بھی عدالت میں موجود تھے۔
میر شکیل کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ22 مئی، 1983 میں مختار عام کو رجسٹرار کے پاس رجسٹرڈ کروایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ چار جون، 1986 کو میر شکیل نے مختار عام حاصل کرنے کے بعد ڈی جی ایل ڈی اے کو عبوری تعمیرکے لیے درخواست دی تھی، جو مجاز اتھارٹی نے مسترد کر دی۔
انہوں نے بتایا کہ 22 جولائی کو ڈائریکٹر لینڈ ڈویلپمنٹ نے میر شکیل کی عبوری تعمیر کی درخواست مسترد کرنے کا لیٹر جاری کیا، ملزم نے پانچ اگست، 1986 کو واجبات کی ادائیگی کر دی تھی ۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے موقف اپنایاکہ1986سے 2019 تک ایل ڈی اے خاموش رہا اور 34 سال بعد کیس شروع کر دیا، زمین کے اصل مالکان نے الاٹمنٹ پرکوئی اعتراض نہیں کیا،ایل ڈی اے کو آج تک اس مختار عام اور ایگزمپشن پر کوئی اعتراض نہیں یہاں تک کہ ایل ڈی اے اس کیس کا مدعی بھی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیب کے طلب کرنے پر میر شکیل تمام متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ نیب آفس میں پیش ہوےتو انہیں گرفتار کر لیا گیا، رواں سال12 مارچ کو میر شکیل کو شکایت تصدیق کی سطح پر گرفتار کیا گیا۔
انہوں نے کہا میر شکیل کے خلاف ریفرنس دائر کیا جا چکا ہے،ریفرنس میں میر شکیل پر جوہر ٹاؤن میں 54 کنال اراضی ایگزمپشن پالیسی کے خلاف ورزی اور قومی خزانے کو 143 ملین روپے نقصان پہنچانے کا الزام عائد ہے۔
وکیل کے مطابق چیئرمین نیب وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے مجاز اتھارٹی نہیں تھےکیونکہ کوئی ایسا ثبوت موجود نہیں کہ میر شکیل نے پبلک آفس ہولڈر سے کوئی ذاتی فائدہ حاصل کیا ہو۔
'نیب آرڈیننس کی دفعہ نائن اے کی ضمنی دفعہ چھ کے تحت یہ معاملہ پبلک آفس ہولڈر کا جرم نہیں بنتا،جن کے خلاف اختیارات سے تجاوز کا الزام لگایا ہے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہی نہیں کیے گئے جبکہ ملزم میر شکیل پر صرف پبلک آفس ہولڈرزکی معاونت کا الزام لگایا گیا ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا مرکزی ملزم کو گرفتار نہ کرنا اور میر شکیل کو گرفتار کرنا 'امتیازی سلوک' ہےکیونکہ نیب کا مرکزی اور شریک ملزموں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف، سابق ڈی جی ایل ڈی اے ہمایوں فیض رسول اور ڈائریکٹر لینڈ ریونیوبشیر احمد کو گرفتار نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا مان لیا جائے کہ ایگزمپشن پالیسی کی خلاف ورزی ہوئی مگر ایسی صورت میں ایل ڈی اے کا قانون موجود ہے،نیب آرڈیننس کے تحت ملزم کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مریم نواز کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا مریم نواز کے کیس میں بھی دو قوانین کے اطلاق کا نکتہ تھا جس میں عدالت نے ملزمہ مریم نواز کوضمانت پررہا کرنے کا حکم دیاتھا۔ واضع رہے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف نیب کیسز میں بھی امجد پرویز ہی ان کے وکیل ہیں۔
میر شکیل الرحمٰن کا موقف
میر شکیل کے خلاف دائر نیب کےریفرنس کو بھی ضمانت کی درخواست میں ریکارڈ کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔میر شکیل نے دائر درخواست ضمانت میں موقف اپنایاکہ نیب نے 'بے بنیاد' اور 'جھوٹے' مقدمے میں انہیں گرفتار کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ روزنامہ جنگ اور جیو ٹی وی چینل کی طرف سے عمران خان حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر انہیں گرفتار کیا گیا،پنجاب حکومت نے 54 پلاٹس کی ایگزمپشن قانون کے مطابق دی۔
میرشکیل کی درخواست کے مطابق ان سے تفتیش مکمل ہو چکی ہے، کوئی برآمدگی بھی نہیں کرنی اور تمام قانونی تعاون پہلے ہی جاری ہے اس لیے انہیں ضمانت پر رہائی دی جائے،وہ آئندہ بھی تعاون جاری رکھیں گے۔
واضع رہے میر شکیل الرحمٰن گذشتہ کئی ہفتوں سے خرابی صحت کے باعث جیل کی بجائے ہسپتال میں موجود ہیں، جہاں انہیں طبی امداد دی جارہی ہے۔ان کی گرفتاری کے بعد سے صحافتی تنظیموں کا احتجاج جاری ہے۔صحافی تنظیموں نے میر شکیل کی گرفتاری کو میڈیا کی آزادی چھیننے کی کوشش قرار دیا ہے۔
نیب کیا کہتا ہے؟
ترجمان نیب محمد ذیشان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نیب نے اپنی تفتیش مکمل ہونے کے بعد عدالتی حکم پر ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوایاتھا، جہاں سے وہ خرابی صحت کے باعث ہسپتال منتقل ہوگئے۔
انہوں نے کہاکہ نیب نے تفتیش مکمل کر لی ہے،ریفرنس بھی دائر ہوچکاہے لہٰذا اب ان کی درخواست ضمانت منظور کرنا یا مسترد کرنا لاہور ہائیکورٹ کا اختیار ہے۔'ہم اپنی طرف سے ان کی درخواست مسترد کرنے اور حراست میں رکھنے کا دفاع کریں گے۔'
انہوں نے واضح کیاکہ نیب دوران تفتیش ملزم کو اس لیے گرفتار کرتا ہے تاکہ وہ باہر رہ کر اپنے خلاف الزامات کا ریکارڈ اور گواہان سے مل کر کیس پر اثر انداز نہ ہوسکے۔'یہی وجہ ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کو بھی قانون کے تحت گرفتار کیاگیااور اب ان کے خلاف باقائدہ ریفرنس میں بیانات شامل کر لیے گئے ہیں۔'