کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بکھرے ہوئے گروپوں نے یکجا ہونے پر اتفاق کرلیا ہے، جس کے بعد حکیم اللہ محسود گروپ نے ٹی ٹی پی کے مرکزی امیر مفتی نور ولی کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے۔
نور ولی جنہیں مفتی نور ولی محسود کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، کو جون 2018 میں تحریک طالبان پاکستان کے رہنما ملا فضل اللہ کی افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد نئے رہنما کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ '6 جولائی 2020 کو تحریک طالبان پاکستان کے سابق امیر حکیم اللہ محسود کے ساتھی کمانڈر مخلص یار کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان کی صف میں شامل ہوئے اور مرکزی امیر مفتی ابومنصور عاصم کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔'
مفتی ابومنصور عاصم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی امیر مفتی نور ولی کا کوڈ نام ہے اور وہ اسی نام سے طالبان کے درمیان مشہور ہیں۔
بیان کے مطابق حکیم اللہ محسود گروپ کے ارکان اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی لائحہ عمل کے پابند ہوں گے۔
رواں برس فروری میں حکیم اللہ محسود کے کمانڈر شہریار محسود افغانستان میں ایک بارودی سرنگ کا نشانہ بن گئے تھے، جس کے بعد مولانا والی محمد عرف عمری کو نیا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
شہریار محسود ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ حکیم اللہ کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے، لیکن حکیم اللہ کی ہلاکت کے بعد شہریار محسود اور خان سعید سجنا کے درمیان تحریک کا سربراہ بننے کے لیے کھینچا تانی شروع ہوگئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٓمقامی ہفت روزہ 'ٹرائبل ٹائمز' کے ایڈیٹر شعیب محسود نے طالبان گروپوں کے یکجا ہونے کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 'حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کمانڈرز خان سعید سجنا اور شہریار محسود کے درمیان تنظیم کی امارت پر لڑائی ہوتی رہی ہے، جس میں سینکڑوں طالبان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔'
طالبان کے ان مذاکرات میں سابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے ملزم اکرام محسود بھی شامل تھے۔
شعیب محسود کے مطابق دونوں ناراض گروپوں کے درمیان مذاکرات مفتی نور ولی کے نائب امیر مفتی حضرت، جنہیں مفتی مزاحم بھی کہتے ہیں، کی سربراہی میں کیے گئے۔
مفتی حضرت یا مفتی مزاحم کا بنیادی تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے سوات سے ہے، جنہیں مولوی فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان کا نائب امیر بنایا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات میں حکیم اللہ محسود کی جانب سے گروپ کے امیر مخلص یار، عسکری کمانڈر قاسم اور حکیم اللہ محسود کے باڈی گارڈ حسن شامل تھے۔