نوے کی دہائی میں ہمارے گاؤں میں کبھی کسی نے پینٹ شرٹ نہیں پہنی تھی یا کم سے کم گاؤں میں پہن کر اپنا مذاق اڑوانے کا خطرہ مول نہیں لیا تھا۔
ہم نے بھی نہیں پہنی لیکن کالج میں فوجی ٹریننگ این سی سی ہوا کرتی تو فوجی وردی پہن کے 15 منٹ گاؤں کی گلیوں سے پیدل اکلوتے بس سٹینڈ تک جانا جان جوکھوں کا کام ثابت ہوتا تھا۔
گاؤں کے کتے بقول مشتاق یوسفی، انتہائی قوم پرست واقع ہوتے ہیں۔ پینٹ شرٹ پہنے بندا چاہے اپنے محلے کا ہی کیوں نہ ہو اس کو دوسرے محلے تک بھگانا اپنا فرض عین سمجھتے تھے۔ بہت بعد میں گاؤں میں بھی پرائیویٹ سکول کھل گئے اور ان کی وردی ہی پتلون اور شرٹ ہو گئی تو گاؤں کے کتوں نے بھی اپنا مزاج بدل لیا۔ اب صرف آدھی پتلون (شارٹس) پہننے پر بھونکتے ہیں۔
کتوں کو دیکھ کر جو اثر پطرس بخاری پر ہوتا تھا، وہی اثر ہم پر بھی غالب تھا۔ یعنی سانس رک جانا، ٹھنڈے پسینے آنا اور حلق خشک ہو جانا۔ ایک دن گلی کے کتوں کے ایک وفد سے مناسب فاصلہ رکھ کرخطاب تک فرمایا اور ان کو پطرس بخاری کا واسطہ دیا، جنہوں نے کتوں کی شان میں شاندار مضمون ’کتے‘ لکھا تھا اور درخواست کی کہ بخاری ہونے کے ناطے ہمارے ساتھ بھی نرم دلی کا مظاہرہ کیا جائے اور تاریکی میں گلی سے گزرتے ہوئے ’تراہ‘ نہ نکالا جائے۔
لیکن ایک کہنہ سال بوڑھے کتے نے اعتراض داغ کر ہمیں لاجواب کر دیا کہ پطرس جیسے عیسائی نام کا بندہ بخاری کیسے ہو سکتا ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ اس بات کا جواب دینے سے پہلے ہی پطرس بخاری عالم ارواح کو سدھار گئے تھے۔
ضروری نہیں کہ صرف کتے ہی فوجی وردی پر طیش میں آ کر کاٹنے کو دوڑیں، ہمارے ہاں فوج اور وردی کے ذکر پر بہت سوں کو اسی طرح کا دورہ پڑتا رہتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پر مستزاد یہ کہ آپ کا دور کا جاننے والا دیہاتی آپ کو پینٹ شرٹ میں دیکھتے ہی زور سے نعرہ لگاتا، ’خیراں خیراں شاہ صاحب دیاں!‘
اس طرح کے کئی ذومعنی جملے اونچی آواز میں بولنے سے اس کی مراد شاہ صاحب یعنی ہماری شان میں قصیدہ پڑھنا ہر گز نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ دوسروں کو متوجہ کرنا ہوتا تھا کہ دیکھ لو یہ نمونہ اگر اب تک نہیں دیکھا۔
گاؤں کے چھوٹے سے لاری اڈے پر صورت حال اور بھی مخدوش ہو جاتی جب تمام دکاندار دکانوں کے آگے آگ جلا کر اجتماعی طور پر ہاتھ سینکنے کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے اپنے تبصروں کا رخ ہماری طرف موڑ دیتے۔ حیرت ہے کہ اسی وقت ان دکانداروں کو اسی چولہے میں ڈال کر ہاتھ سینکنے کی خواہش پیدا ہوتی تھی جب ہم وہاں پہنچتے تھے۔
مسافر منی وین جس کو ہمارے ہاں ویگن کہا جاتا ہے، آتی تو اس کے اندر پہلے سے ہی پچھلے گاؤں کے مسافر اور طالبعلم ٹھنسے ہوتے لیکن دیر سے پہنچنے پر فوجیوں کی طرف سے دی جانے والی متوقع سزا کا سوچ کر ہم ویگن کے پیچھے لگے ہوئے لوہے کے جنگلے پر کھڑے ہو جاتے اور سہارے کے لیے اپنی انگلیاں اس کی چھت پر موجود ایک باریک سی درز میں ڈال لیتے۔
پانچ لڑکے ایک ساتھ اس جنگلے پر کھڑے ہو سکتے تھے۔ اب خود اندازہ کریں کہ 25 سال پہلے کے دسمبر کی سردی اور ویگن کی سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار اور ہمارے سر ویگن سے اوپر نکلے ہوئے، ہڈیوں میں گھستی اس تیز ٹھنڈی ہوا اور ویگن کی خوبصورتی کے لیے لگائے گئے اس جنگلے کے دو عدد نٹس کے رحم و کرم پر لٹکے ہوئے 20 کلومیٹر کا یہ سفر طے کرکے کالج کے سامنے پہنچتے تو ہماری انگلیاں اس باریک درز میں ٹھنڈ سے جم جاتیں، جنہیں نکالنے کے لیے عموماً ڈرائیور سے مدد لینی پڑتی۔ اس دوران تیز یخ بستہ ہوا سے چہرے نانگا پربت کو سر کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے انگریز کوہ پیما جیسے دکھتے۔
کئی دیہاتی لڑکوں نے یہ جگاڑ نکالی کہ ایک پلاسٹک بیگ (شاپر) میں وردی ڈال کے ساتھ لاتے اور کالج پہنچ کر تبدیل کرتے، اسی طرح واپسی پر بھی وردی اتار کر شاپر میں لے جاتے تا کہ قوم پرست دیہاتی کتوں اور خود دیہاتیوں کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔
ایک بار ٹریننگ دینے والے فوجی نے لیکچر دیتے ہوئے پوچھا، ’کاکول کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ٹی وی پہ کبھی دیکھی ہے؟‘
فٹ سے میرے منہ سے نکل گیا، ’سرمیں نے ریڈیو پر دیکھی ہے۔‘
سارے لڑکے کھلکھلا کر ہنس دیے اور فوجی دماغ اپنی سبکی پر غش کھاتے کھاتے بچا۔ موصوف نے کالج کے فٹ بال گراؤنڈ کے ارد گرد دو بار ’کرالنگ‘ کرنے کی سزا سنا دی۔ ایک چکر پر ہی کہنیوں سے وردی اور جلد دونوں پھٹ گئی اور خون آنے لگا۔ میں نے پاس سے گزرنے والے صوبیدار کو پھٹی ہوئی کہنیاں دکھا کر اپنی سزا میں تخفیف کروائی۔
این سی سی کا بڑا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ کلاشنکوف اور جی تھری رائفل سے فائرنگ کروائی جاتی جس سے ہتھیاروں سے ہمارا خوف اور جھجھک دور ہو جاتی تھی۔
اس کے بعد کبھی تھری جی چلانے کی نوبت نہیں آئی، البتہ آج بھی گاؤں میں کسی کو پتلون میں گھومتے دیکھتے ہیں تو خود پر ٹوٹنے والے ستم یاد آ جاتے ہیں۔