ایک خاتون اگر گھر کی چار دیواری میں خوف اور ہراسانی کے عالم میں زندگی گزار رہی ہے تو سوچیں ایسا معاشرہ اخلاقیات کے میدان میں کہاں کھڑا ہے؟
سوشل میڈیا پر گذشتہ روز سے گھریلو تشدد کا شکار رہنے والی صدف زہرا نامی لڑکی کے قتل کی خبر گردش کر رہی ہے۔
صدف کے گھر والوں کے مطابق اس کے شوہر علی سلمان علوی نے انہیں اطلاع دی کہ اس نے خود کشی کر لی ہے جبکہ صدف کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ علی سلمان علوی نے اس پر تشدد کرکے اسے مار کر پنکھے سے لٹکایا ہے۔
شوہر علی سلمان گرفتار تو ہو چکا ہے لیکن تاحال اس کا بیان اور پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ اس واقعے کے بعد گھریلو تشدد کی روک تھام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور بہت سارے لوگ اس حساس مسئلے پر گفتگو کررہے ہیں۔ صدف زہرا کا قتل کیسے ہوا آیا وہ گھریلو تشدد کا شکار تھی بھی کہ نہیں اس حوالے سے ابھی بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے لیکن جہاں تک بات ہے ’گھریلو تشدد‘ کی تو یہ جتنا حساس مسئلہ ہے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اس لیے ہے کیونکہ معاشرہ اسے اس طرح سے اسے جرم تصور نہیں کرتا جس طرح سے کیا جانا چاہیے۔
بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کی وجہ ہی قانون اور اس پر عمل درآمد کا جھکاﺅ مردوں کی طرف ہونا، سماجی دباﺅ کے ذریعے عورتوں کو خاموش کرانا، عورتوں کا قانون سے بے خبر ہونا اور مجموعی طور پر تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کے متعلق معاشرے اور ریاستی اداروں کا غیر ہمدردانہ رویہ ہے۔
18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو خودمختاری ملی تو قانون سازی کا اختیار بھی ان کے پاس آیا اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے صوبوں نے اپنے لیے قانون سازی کی بھی کوشش کی، ایسی ہی ایک کوشش پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی طرف سے گھریلو تشدد کا بل پاس کروا کر قانون بنانا تھا لیکن افسوس کہ تینوں صوبوں نے یہ قانون تو بنا لیا لیکن عملی نفاذ ابھی تک صفر ہے۔
اس معاملے میں حکومت، ریاست، پولیس، قوانین سبھی کمزور ہیں اورسب سے بڑھ کر یہ کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سمجھ بوجھ طاقت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے عورت ہر قسم کے ظلم کا با آسانی سے شکار ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے حق میں آواز اٹھانا بھی چاہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، دنیا کیا کہے گی، برداشت کرو، شوہر خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔
یوں پہلے ہی قدم پر خاندان لڑکی کا حوصلہ پست کر دیتا ہے تو معاشرے سے کیا گلہ؟
اس کے علاوہ معاملہ اگر پولیس تک پہنچ جائے تو وہ بھی ثالثی کرتی دکھائی دیتی ہے اور لڑکی کو سمجھا رہی ہوتی ہے کہ گھر بچاﺅ اور برداشت کرو، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یوں پولیس کا جھکاﺅ بھی مارنے والے مرد کی طرف ہوتا ہے۔
عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ گھریلو تشدد دیہی علاقوں میں زیادہ ہوتا ہے یہ تصور بالکل بھی مکمل طور پر درست نہیں ہے کیونکہ شہری علاقوں میں بھی گھریلو تشدد بڑی تعداد میں ہوتا ہے فرق یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں گھریلو تشدد زیادہ نظر آجاتا ہے لیکن شہری علاقوں میں گھریلو تشدد نہ ہونے کے برابر رپورٹ ہوتا ہے، غیر تعلیم یافتہ اور پڑھی لکھی دونوں ہی مار کھا رہی ہیں لیکن پڑھی لکھی خواتین ذرا خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسے واقعات ہوں تو اسمبلیوں میں بیٹھی خواتین کے کردار کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے، سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھی خواتین، عام عورتوں کے حقوق کو تحفظ دینے والے بل پیش کر کے قانون بنوانے میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرتیں؟
ایسا کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر خواتین ایسے کوئی بل اسمبلیوں میں پیش کرتی بھی ہیں تو انہیں اسے پاس کروانے کے لیے انہیں تعاون کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت مردوں کی بیٹھی ہوتی ہے جو کہ عموماً مخالفت کرتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔
اس کی مثال حال ہی میں اسمبلی میں چائلڈ میرج بل کا پیش ہونا ہے جسے حکومت کے اتحادی نے پیش کیا لیکن حکومت کے ہی مردوں نے اس کی مخالفت کر دی۔
ایک اچھی مثال بھی موجود ہے کہ انسدادِ ہراسانی ایکٹ جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں منظور ہوا، اسے پی پی پی کی خاتون نے پیش کیا تو نہ صرف اسی جماعت کے مردوں نے اسے سپورٹ کیا بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مردوں نے بھی اسے منظور کروانے کے لیے مکمل رضامندی دی۔
گھریلو تشدد کو نہ صرف جرم سمجھے جانے کی ضرورت ہے بلکہ جن صوبوں نے قانون بنا لیا ہے انہیں چاہیے کہ وہ اس کے نفاذ کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کریں۔
کے پی کے میں ابھی تک یہ قانون نہیں بن سکا اس صوبے کو بھی چاہیے کہ اس قانون کو بنائے اور عملی نفاذ کے لیے سر توڑ کوششیں کرے۔ اس کے علاوہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی پیغامات کے ذریعے معاشرے کو آگاہی دے کہ گھریلو تشدد جرم ہے۔
میڈیا کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ پیمرا کے قواعد کے مطابق میڈیا پبلک سروس میسج کا مخصوص وقت مقرر کرنے کا پابند ہے جو کہ نظر بھی آتا ہے کہ لیکن خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے آگاہی دینے کے لیے عوامی پیغامات نہ ہونے کے برابر نشر کیے جاتے ہیں۔
جب تک معاشرہ گھریلو تشدد کو جرم نہیں سمجھے گا تب تک یہ جرم کرنے والے دندناتے پھریں گے اورجب چاہیں عورت پر تشدد کر کے اپنی انا کو تسکین دیتے رہیں گے۔