'گلگت میں چھ سالہ بچے سے زیادتی کا ملزم پولیس تنبیہہ کے بعد رہا'

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 'ہم نے فیس بک پوسٹ کی بنیاد پر اس کیس میں ازخود نوٹس لیا، پولیس چیف گلگت بلتستان کی طرف سے بٹھائے گئے کمیشن پر فائنڈنگ کا انتظار ہے۔ اگر ملزم کے خلاف ایف آئی آر ہوتی ہے تو ٹھیک ورنہ ہم کیس کو دیکھیں گے۔'

(پکسابے)

گلگت بلتستان، ضلع گانچے، گاؤں دم سم میں چھ سالہ بچہ ایک دکان پر سائیکل ٹھیک کرانے گیا، سائیکل مکینک نے وہیں بچے کو دکان کے اندر لے جا کر اس سے جبری زیادتی کی۔ 

گھر آ کے تکلیف کی وجہ سے ماں کے پوچھنے پر بچے نے سب کچھ بتا دیا۔

بچے کے چچا اور ماموں نے ملزم کو تھوڑی مارپیٹ کے بعد پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس والوں نے  آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کی تنبیہ کے ساتھ ملزم کو چھوڑ دیا۔

حاصل شدہ تفصیلات  کے مطابق ملزم گلزار ولد موسی پیشے کے لحاظ سے ڈرائیور اور بچوں کا سائیکل مکینک ہے۔

وہ اس پیشے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بچوں کا استحصال کرتا ہے۔ اس سے لگ بھگ ایک سال پہلے اسی ملزم نے ایک دس سالہ بچی کے منہ میں کپڑا رکھ کر ریپ کیا تھا۔

متاثرہ بچی کے گھر والوں نے گاؤں والوں کے دباؤ اور شرم کی وجہ سے ملزم کے خلاف پرچہ تک نہیں کاٹا تھا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گاؤں کے ایک رہائشی نے اس امر کی تصدیق کی کہ پولیس والے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے ملزم کی پشت پناہی کے ساتھ ساتھ متاثرین کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے 'کہ تم کو کورٹ میں  ثابت کرنا پڑے گا کہ میرے بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، کورٹ میں پیش ہونا پڑے گا اور پیسے بھی خرچ کرنے ہوں گے۔'

مذکورہ رہائشی نے گاؤں والوں کی طرف سے سترہ افراد کی دستخط شدہ قرارداد کی کاپی بھی ہمیں فراہم کی۔ ان کے مطابق گاؤں کے چند لوگ ملزم کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور کیس کو دبانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

مزید معلومات اور حقیقت  جاننے کے لیے ایس ایس پی گانچے جان محمد سےرابطہ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'متاثرہ بچے کے والدین نے بہت دیر کر دی ہے۔ مارچ سے اب تک وہ لوگ کہاں تھے؟ اس کیس کو ایسے ہی اچھالا جا رہا ہے اور اس گاؤں کے پچاس لوگوں کے دستخطوں پر مشتمل قرارداد میرے پاس جمع ہے جس میں ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اس جھوٹے کیس کے چکر میں گاؤں کی عزت کو داؤ پر لگایا جا رہا ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس والوں سے تفتیش کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔

'پولیس چیف کی ہدایت پر انکوائری چل رہی ہے کہ آیا پولیس اس جرم میں شریک ہے کہ نہیں، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ پولیس والے بھی اگر قصوروار ٹھہرے تو سزا کے مرتکب ہوں گے۔'

اہم بات یہ ہے کہ انکوائری پولیس کی تین رکنی ٹیم کر رہی ہے۔ ان میں سے ایک اہلکار کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ  بچے کے ریپ کیس میں صلح کروانے والوں میں ان کا نام شامل ہے۔

اطلاعات کے مطابق پولیس والوں کی طرف سے متاثرہ لڑکے کے ماموں  کو بلا کر ان سے معلومات سوشل میڈیا میں لیک ہونے کے حوالے سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔

 اس کیس کے حوالےسے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے لا آفیسر محمد حسن کہتے ہیں 'ایسے کیسز میں  والدین اور رشتہ داروں کو کسی بھی وقت شکایت درج کرنا ہوتا ہے۔ ہم نے فیس بک پوسٹ کی بنیاد پر اس کیس میں ازخود نوٹس لیا ہے اور پولیس چیف گلگت بلتستان کی طرف سے بٹھائے گئے کمیشن پر فائنڈنگ کا انتظار ہے۔ اگر ملزم کے خلاف ایف آئی آر ہوتی ہے اور پکڑا جاتا ہے، تو الگ بات ہے، اگر ایسا نہیں ہوا پھر اپنی طرف سے اس کیس کو دیکھیں گے۔'

ایسے ملزمان کے ذہنی کیفیت کے بارے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد سعید خان کا کہنا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کو پیڈو فائل کہتے ہیں۔ یہ لوگ بچپن میں ایسے جرائم کا  شکار ہوتے ہیں، اور بڑے ہوکر وہی سلوک دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی ذہنی بیماری ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان