وفاقی وزیر علی حیدر زیدی اور سندھ حکومت کی جاری کردہ جے آئی ٹی دونوں رپورٹوں میں عذیر بلوچ کے بارے میں ایک بات مشترک ہے۔ دونوں کئی سنسنی خیز انکشافات کرتی ہیں۔
وفاقی حکومت کی رپورٹ عذیر بلوچ کی سیاسی جماعتوں میں اثرورسوخ کی بات کرتی ہے جب کہ سندھ حکومت کی رپورٹ میں حیران کن طور پر اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
عاقل ندیم کا یہ کالم آپ ان کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
یہ جاننا اہم نہیں کہ کون سی رپورٹ درست ہے لیکن دونوں رپورٹوں میں ہمارے ہمسایہ برادر اسلامی ملک ایران کا ذکر ہے۔ چونکہ علی حیدر زیدی نے کہا ہے کہ انہوں نے یہ رپورٹ وزیر اعظم کو دکھانے کے بعد جاری کی ہے تو یہ قیاس باآسانی کیا جاسکتا ہے کہ وفاقی حکومت اس رپورٹ کے مندرجات ایرانی حکومت کے علاوہ عام عوام تک پہنچانا چاہتی ہے۔ سفارت کاری میں یہ طریقہ انتہائی نامناسب ہے اور اس سے اجتناب کرنے کی ضرورت تھی خصوصا اس وقت جب کہ ہمارے ایران کے ساتھ تعلقات بہترین نہیں ہیں۔
عذیر بلوچ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایرانی پاسپورٹ تھا اور وہ ایرانی انٹیلی جنس کے افسروں سے بھی ایران میں ملتے رہے جو ان سے پاکستانی فوج اور مختلف فوجی تنصیبات کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہے۔ ایرانی حکام کراچی کے حالات میں دلچسپی رکھتے تھے اور جے آئی ٹی کے مطابق انہیں عذیر بلوچ نے کراچی کی تمام اہم فوجی تنصیبات کی تفصیل مہیا کیں اور اہم فوجی افسران کے بارے میں معلومات بھی دیں۔
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو بھی ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوا اور بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے ایک وسیع سلسلہ کا آغاز کیا۔ چونکہ ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقے کی ایران کی طرف سے سخت نگرانی کی جاتی ہے اس لیے کلبھوشن کا پاکستان میں داخلہ ایران کے سرحدی حکام کے تعاون سے ہی ممکن ہوا ہوگا۔
ماضی قریب میں جب پاکستان، افغانستان میں طالبان حکومت کی مدد کر رہا تھا تو ایران کے مختلف شہروں میں پاکستان مخالف مظاہرے دیکھنے کو ملتے تھے اور پاکستانی پرچم کو جلانا یا اسے قدموں تلے روندنا ان مظاہروں کا خاصہ ہوتا تھا۔ ایران میں چونکہ ایک طرح کا آمرانہ طرز نظام ہے تو کسی دوسرے ملک کے مخالف مظاہرے یا تو حکومت کی سرپرستی یا منظوری سے ہی کیے جا سکتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پاکستان مخالفانہ جذبات ایران حکومت کی پالیسی کے عکاس تھے۔
پاکستان اور ایران کے تعلقات میں سرد مہری اور مخاصمت ایرانی انقلاب کے بعد کی پیداوار ہے۔ اس سے پہلے شاہ کے دور میں پاکستان اور ایران کے گہرے دوستانہ تعلقات تھے۔ پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ملک ایران تھا۔ شاہ ایران 1950 میں پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے غیرملکی رہنما تھے۔ ایران نے 1965 کی جنگ میں ہمیں ہر ممکن مدد فراہم کی جس میں طبی امداد اور پانچ ہزار ٹن تیل بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ ایران نے بھارت پر تیل کی سپلائی بند کرنے کا بھی عندیہ دیا۔
اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے کی ویب سائٹ کے مطابق ایران نے پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کی دفاعی قوت بڑھانے کے لیے مغربی جرمنی سے 90 سیبر جیٹ فائٹر خرید کر پاکستان کے حوالے کیے گو اس کا سرکاری طور پر کبھی بھی اعلان نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
دونوں ملک علاقائی تعاون کی تنظیم آر سی ڈی کے متحرک ممبر تھے اور ان میں معاشی سماجی اور گہرے ثقافتی تعلقات بھی تھے۔ ایران کو پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ایرانی ثقافتی مرکز قائم کرنے کی اجازت تھی جس میں ثقافتی پروگرامز کے علاوہ فارسی زبان سکھانے کی بھی سہولت موجود تھی۔ دونوں ملکوں میں فرقہ واریت کی بنیاد پر کبھی بھی تقسیم یا محاذ آرائی نہیں تھی۔ پاکستان اور ایران کے درمیان سفر کی سہولتیں بہتر کی گئی اور سیاحت کے شعبے میں بھی کافی ترقی ہوئی۔
ان بڑھتے ہوئے خوشگوار تعلقات کی وجہ بین الاقوامی حالات بھی تھے مگر ان پر جوش تعلقات میں سنجیدگی اور خلوص بھی نمایاں نظر آتا تھا۔ کیونکہ ایران اور پاکستان دونوں سرد جنگ میں مغرب کے ساتھی رہے تو ان تعلقات میں اور مضبوطی پیدا ہوئی۔
مصر میں صدر ناصر کے فوجی انقلاب نے، جس کی بھارت نے حمایت کی اور جس سے دیگر علاقائی بادشاہتوں کو خطرہ محسوس ہوا، بھی ایران کو اپنے دفاعی مقاصد کے لیے پاکستان کے اور قریب کیا۔ ایران نے 1971 میں بھی کھل کر پاکستان کی حمایت اور مدد کی اور فوجی ساز و سامان بھی مہیا کیا۔ ایران نے بھارتی جارحیت کی مذمت کی اور پاکستان کو سفارتی مدد بھی فراہم کی۔
اتنے مضبوط اور خوشگوار برادرانہ تعلقات کو اسلامی انقلاب کے بعد اور مضبوط ہونا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے انقلاب کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں شکوک اور سرد مہری پیدا ہوگئی۔ اس بگاڑ میں ایران اور پاکستان دونوں کی قیادت کا قصور رہا ہے۔ ایران کسی بھی نوخیز انقلابی حکومت کی طرح انقلاب کی برآمد پر یقین رکھتا تھا اور اس کے لیے متحرک کوششیں بھی کی گئیں۔ اس سے اس کے کئی عرب ممالک بشمول پاکستان سے تعلقات بھی متاثر ہوئے۔ پاکستان میں اس وقت ایک فوجی آمر کی حکمرانی تھی جو خود مذہب کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو طول اور مضبوطی فراہم کرنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں پہلی دراڑ پڑی۔
افغان جہاد اور طالبان کی حکومت نے ان مضبوط تعلقات کی بنیادوں کو مزید جنجھوڑا اور نوبت یہاں تک پہنچی کے سرد مہری اور مخاصمت عوامی سطح تک دکھائی دینے لگی۔ ایرانی سفارت کار پاکستان میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل اور اغوا ہوئے۔ پاکستانی سفارت کاروں کو بھی ایران میں جانی نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئیں۔
باہمی تعلقات کے اس مشکل دور میں تہران میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر مظاہرے ایک معمول بن گئے۔ ایران میں ہمارے قونصل خانوں کو بھی مسلسل شہری حکومتوں کے ذریعے مختلف انتظامی معاملات میں ہراساں کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان تمام حالات کے دوران ایرانی حکومت بھارت کے قریب آنے لگی اور ان کے معاشی تعلقات میں گہرائی پیدا ہوئی اور وہ علاقائی مسائل کو بھی ایک نظر سے دیکھنے لگے۔ ایران نے بھارتی نقطہ نگاہ سے اتفاق کرتے ہوئے گوادر بندرگاہ کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے چابہار بندرگاہ کو بھارت کی بھاری مالی امداد سے تیزی سے مکمل کرنا شروع کیا۔
ایران کو جاننے والے بہت سارے پاکستانی سفارت کار سمجھتے ہیں کہ ایران کی انقلابی حکومت نے کبھی بھی پاکستان کا جوہری طاقت بننے کو پسند نہیں کیا۔ ایران نے حال ہی میں کچھ پاکستانی نوجوانوں کو بھی شام میں جاری خانہ جنگی میں استعمال کیا ہے جس سے باہمی تعلقات میں مزید کھنچاؤ پیدا ہوا ہے۔
عذیر بلوچ کے انکشافات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی حکومت کو کراچی میں خصوصی دلچسپی تھی اور شاید کراچی کی بدامنی میں ایرانی طاقتوں کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ وفاقی حکومت کی سطح پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کو شائع کرنا جس میں ایران کی ہماری فوجی تنصیبات کے بارے میں دلچسپی تفصیل سے موجود ہے، ہمارے تعلقات میں مزید بگاڑ لا سکتی ہے۔
کچھ تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ چونکہ کراچی سے ایران کی براہ راست دلچسپی نہیں ہے تو شاید یہ معلومات وہ بھارت کے لیے حاصل کر رہا تھا۔ اب یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس رپورٹ کا مقصد حکومت سندھ کو بدنام کرنا تھا یا ایران کے بارے میں منفی معلومات کو آشکار کرنا تھا۔ یقینا اس رپورٹ کو شائع کرنا جس میں آپ کے ہمسایہ ملک کے بارے میں ہماری انٹلجنس ایجنسیاں منفی خیالات کا اظہار کر رہی ہوں ہمارے علاقائی مفادات میں نہیں تھا۔
ہماری حکومت کو اپنے ہمسایوں کے بارے میں اس قسم کی رپورٹ کی اشاعت کرنے میں پختگی اور احتیاط کی ضرورت تھی۔ ایران کے ساتھ ہمارے مخدوش تعلقات پچھلے تین چار سالوں سے قدرے بہتری کی طرف جا رہے ہیں جن میں پچھلے سال وزیر اعظم کا دورہ ایران بھی شامل ہے۔ ان مشکل تعلقات میں مزید خلل ڈالنا کسی طرح بھی ہمارے علاقائی مفادات میں نہیں ہے۔
ہمیں اپنے باہمی تحفظات کا اظہار اور مفادات کا دفاع سفارتی ذرائع سے کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اس سلسلے میں انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹوں اور میگافون کا استعمال کیا جائے۔