ایران سے متصل بلوچستان کے سرحدی علاقے ماشکیل کے رہائشی21 سالہ امام دین میٹرک پاس ہیں۔
علاقے میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح ایران سے اسمگل شدہ پیٹرول فروخت کرکے اپنا گزر بسر کرتے ہیں ۔
اسمگل شدہ پیٹرول کی فروخت سے امام دین روزانہ پانچ سو روپے تک کما لیتے ہیں،لیکن حکومت کی جانب سے پاک ۔ایران سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ ان کے لیے پریشان کن ہے۔
18 اپریل کو ضلع گوادر کے علاقے اورماڑہ میں شدت پسندوں نے ایئرفورس، نیوی اور کوسٹ گارڈ کے 14اہلکاروں کو بسوں سے اتار کر ہلاک کردیا تھا۔
جس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ پاکستان نے 950کلو میٹر طویل پاک۔ ایران سرحد پر باڑ لگانے اور سرحدی نگرانی کیلئے ہیلی کاپٹرسروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق پاک۔ ایران سرحدکی سکیورٹی اور امن و امان کیلئے متعدد اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، جس کے تحت نئی کمانڈ تشکیل کے ساتھ نئی فرنٹیئر کور بھی بنائی جائے گی۔
امام دین کہتے ہیں: ہمارے علاقے میں روزگار کے مواقع نہیں اور واحد ذریعہ ایرانی پیٹرول ہے جو غیر قانونی طورپر لایا جاتا ہے اگر سرحد پر باڑ لگ گئی تو یہ کاروبار رک جائے گا۔
ماشکیل میں تقریبا ایک سو کے قریب ایران سے اسمگل شدہ پیٹرول کی دکانیں ہیں اور یہاں کے ہر گھر سے دو سے تین افراد کا روزگار اسی کاروبار سے وابستہ ہے ۔
امام دین نےانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سرحد پر باڑ لگنے سے صرف کاروبار ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ دونوں جانب بسنے والی بلوچ برادریوں کا آپس میں رابطہ کٹ جانے کا خدشہ ہے۔
امام دین کے مطابق’ایرانی سرحد سے متصل بلوچستان کے کئی علاقوں میں بہت سے لوگ رہتے ہیں جن کا ایک گھر پاکستان اور دوسرا ایران کا صوبہ سیستان بلوچستان ہے اور ہم آسانی سے ایک جانب سے دوسری جانب آ جا سکتے ہیں مگر باڑ لگنے سے ہم اپنوں سے دور ہوجائیں گے‘۔
ادھر کوئٹہ میں چیمبر آف کامرس بلوچستان کے سینیئر نائب صدر صلاح الدین خلجی پاک ۔ایران سرحد پر باڑ لگانے کے حق میں ہیں کیونکہ وہ اس فیصلے کو دہشت گردی کی روک تھام میں معاون سمجھتے ہیں۔
صلاح الدین خلجی نےانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ بلوچستان کے موجودہ حالات اور اورماڑہ کا جو واقعہ ہوا اس کے بعد ایرانی سرحد پر باڑ لگانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں صلاح الدین خلجی نے بتایا کہ ایرانی سرحد پر باڑ لگانے سے مقامی لوگوں کے روزگار کامسئلہ تو ہوگا مگر ہمیں اس اقدام کو دہشت گردی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔
صلاح الدین خلجی کے مطابق ایرانی سرحد پر باڑ لگنے سے قانونی تجارت کو فروغ ملے گا اور روزگار میں اضافے کےساتھ صوبے اور ملک کی آمدن بھی بڑھے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستانی حکام کے مطابق پاک۔ ایران سرحدکی سکیورٹی اور امن و امان کیلئے متعدد اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، جس کے تحت نئی کمانڈ تشکیل کے ساتھ نئی فرنٹیئر کور بھی بنائی جائے گی۔
ادھر، پاکستان اور ایران نے پیر کو باہمی سرحد پر دہشت گردی کے تدارک کے لیے ’مشترکہ فورس‘ بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ اعلان ایرانی صدر حسن روحانی اور دو روزہ سرکاری دورے پر تہران میں موجود وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے درمیان ملاقات کے بعد کیا گیا۔
’ہم نے پاکستان۔ ایران سرحد پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک مشترکہ ریپڈ ایکشن فورس بنانے پر اتفاق کیا ہے‘۔ صدر روحانی کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا جب سرحد کی دونوں جانب ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کشیدگی دیکھنے میں آرہی ہے۔
ملاقات کے بعد عمران خان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ دونوں ملکوں کے فوجی سربراہ مل بیٹھ کر سکیورٹی تعاون پر تفصیلی بات چیت کریں گے ۔ ’ہمیں یقین ہے کہ دونوں ملک دہشت گردی پر مبنی سرگرمیوں کے لیے اپنی زمین استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ہم اپنی زمین سے ایران کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق، مارچ میں ایرانی صدر حسن روحانی نے سیستان بلوچستان میں ایرانی انقلابی گارڈز پر حملے میں 27 ہلاکتوں کے بعد پاکستان سے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔