جب سے حکومت سندھ اور وفاق نے عذیر بلوچ سے متعلق دو مختلف جے آئی ٹی رپورٹس منظر عام پر لائی ہیں ان کے مختلف پہلوں پر بحث جاری ہے لیکن ایران سے متعلق کی گئی بظاہر تحقیقات قدرے نظر انداز دکھائی دیتی ہیں۔
سندھ حکومت کی جانب سے عذیر بلوچ کی رپورٹ پر تحریک انصاف کے علی زیدی نے سوالات اٹھانے کے ساتھ ساتھ خود بھی ایک تحقیقاتی رپورٹ پیش کی ہے۔
حکومت سندھ کی رپورٹ میں عذیر بلوچ کے ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ 2014 میں عذیر بلوچ ایران کے شہر چاہ بہار میں رہ رہے تھے جب ان کی ملاقات حاجی ناصر نامی ایک شخص سے ہوئی۔ حاجی ناصر نے عذیر بلوچ کو تہران میں رہنے کے لیے ایک بنگلے کی پیشکش بھی کی اور عذیر بلوچ کو یہ بھی بتایا کہ ان کے ایرانی انٹیلی جنس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور وہ عذیر بلوچ کی ان سے ملاقات کروا سکتے ہیں۔
رپورٹ میں لکھا ہے کہ عذیر بلوچ کی مرضی کے ساتھ حاجی ناصر نے ایرانی انٹیلی جنس کے ایک افسر کے ساتھ ان کی ملاقات کروائی جس میں عذیر بلوچ کو پاکستان آرمی کے اہلکاروں اور کراچی کی عمومی سکیورٹی صورت حال پر معلومات دینے کے لیے کہا گیا۔
سندھ حکومت کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ اور وفاقی وزیر علی زیدی کی جانب سے سامنے لائی جانے والی رپورٹ میں یہ معلومات مشترک ہیں۔ سندھ حکومت کی رپورٹ اس کے بعد ایران کے حوالے سے خاموش ہے مگر علی زیدی کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں عذیر بلوچ سے مانگی گئی تفصیلات کی معلومات درج ہیں۔
علی زیدی کی رپورٹ کے مطابق عذیر بلوچ نے ایرانی انٹیلی جنس کو پاکستان فوج کے کمانڈر 5 کور، کراچی کے سٹیشن کمانڈر، کارساز کے نیول کمانڈر اور آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے افسران کے نام دیے۔ ساتھ ہی ہیڈ کوارٹر 5 کور، کمانڈر 5 کور کے مکان کے راستے کا نقشہ، سٹیشن ہیڈ کوارٹرز کراچی، اور نیول ہیڈکوارٹرز کارساز کا ہاتھ سے بنایا ہوا نقشہ بھی دیا۔
اس کے علاوہ دونوں رپورٹس میں عذیر بلوچ کی ایرانی شہریت کے حوالے سے معلومات بھی درج ہیں۔ دونوں رپورٹس کے مطابق عذیر بلوچ کی آنٹی ایران میں مقیم ہیں۔ انہی آنٹی نے عذیر بلوچ کو ایران کا برتھ سرٹیفیکیٹ لینے میں مدد دی۔ رپورٹس میں عذیر بلوچ کے بوگ ایرانی پاسپورٹ کے دوبارہ اجرا کے لیے ایران سفر کا بھی ذکر ہے۔
ان دونوں تحقیقاتی رپورٹس میں مبینہ ایرانی انٹیلی جنس اہلکار کا عذیر بلوچ سے پاکستان آرمی کے افسران اور دفاتر کی معلومات مانگنا دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا کر سکتا ہے۔ ماضی میں ایران پاکستان پر جیش العدل کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر اعتراضات اٹھاتا رہا ہے جب کہ پاکستان بھی ایران کو بلوچستان میں کارروائی کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف ایکشن کے لیے زور ڈالتا رہا ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں سپیشل برانچ، سی ٹی ڈی، انٹیلی جنس بیورو، آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس، پاکستان رینجرز سندھ اور کراچی پولیس کے اہلکاروں کے دستخط ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی زیدی نے کل جیو ٹی وی کے پروگرام میں اس رپورٹ پر چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی تھی کہ وہ رپورٹ کے معاملے پر ازخود نوٹس لیں اور کہا تھا کہ وہ خود عدالت میں درخواست دو دن بعد جمع کروا دیں گے۔
علی زیدی نے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے ’سب چیزیں وزیراعظم کے سامنے رکھ دی ہیں۔‘ علی زیدی نے مزید کہا کہ ’میں نے ان (وزیراعظم) کے سامنے جے آئی ٹی رکھ دی اور وزیر اعظم آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہیں اور انگریزی پڑھنا جانتے ہیں اور ان کے پاس یہ جے آئی ٹی ہے۔‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس رپورٹ کو وزیر اعظم کی تائید بھی حاصل ہے۔
سابق آئی جی پولیس طاہر عالم نے جے آئی ٹی رپورٹس کے اندر موجود مواد کی حقیقت کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے تجربے میں جے آئی ٹی رپورٹس کے اندر جو مواد موجود ہوتا ہے اسے تفتیشی افسر کے لیے عدالت کے سامنا پیش کرنا اور ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیوں کہ عموما جے آئی ٹی بیانات پر مبنی ہوتی ہیں اور عدالت کے سامنے ان بیانات میں چاہیے صداقت بھی ہو مگر انہیں ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔
طاہر عالم کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، کیسز کرمنل پروسیجر کوڈ (ضابطہ فوجداری) یا متعلقہ قوانین کے مطابق چلتے ہیں۔
’انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے اندر جے آئی ٹی کا ذکر ہے مگر اس میں بھی جے آئی ٹی کے قیام کو ضروری قرار نہیں دیا گیا۔‘
یہ واضح نہیں کہ آیا پاکستان نے جب یہ تفصیلات تحقیقات کے دوران سامنے آئیں تو ایران کے ساتھ اس پر بات کی یا نہیں۔ اس بارے میں ایران کا کوئی موقف بھی سامنے نہیں آیا ہے۔