چترال اور گلگت کے درمیان شندور تنازع کوئی نیا نہیں۔ ہر سال جون اور جولائی میں کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ 2010 میں پیش آیا تھا، جس میں گلگت نے اپنی چھ ٹیمیں واپس بلا لی تھیں اور شندور فیسٹیول کا بائیکاٹ کیا تھا۔
ایسے واقعات تسلسل سے ہوتے آئے ہیں، کیونکہ جہاں سیاست کا عمل دخل ہو، وہاں ایسے واقعات کوئی انہونی بات نہیں۔
اس وقت کے وزیر خزانہ گلگت بلتستان محمد علی اختر کے مطابق تشہیری مہم میں گلگت کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ فنڈ میں بھی حصہ ملنا چاہیے تھا، تاہم خیبرپختونخوا حکومت نے انکار کر دیا۔ سلیم خان کی سربراہی میں کمیشن نے گلگت کا دورہ بھی کیا تھا، جو ناکام مذاکرات کے بعد واپس لوٹا۔
لیکن اس بار حکومت کی طرف سے ایک نوٹیفیکیشن تنازعے کا سبب بنا ہوا ہے جس کے مطابق نئے منصوبے کے تحت ہندراپ شندور پارک بنایا جائے گا جس میں شندور کو گلگت کا حصہ تصور کیا گیا ہے۔
دوسری جانب مہتر چترال فتح الملک علی ناصر صاحب نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ 'وزیر اعظم کے محفوظ مقامات کے لیے نئے منصوبے کے تحت شندور کو گلگت کا حصہ تصور کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندراپ گلگت بلتستان میں ہے اور شندور ایک ٹرانس باؤنڈری ایریا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت شندور کی قربانی کبھی نہیں دے گی۔ شندور چترال کی ملکیت ہے۔'
دوسری جانب شندور کو نیشنل پارک بنانے پر رکن قومی اسمبلی چترال مولانا عبدالاکبر چترالی نے حکومت کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی شندور کو گلگت بلتستان کا حصہ قرار دینے پر حکومت پر تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان میں بچے بچے کو پتہ ہے کہ شندور چترال میں ہے۔ اب بھی شندور میں سینکڑوں چترالی خاندان رہتے ہیں اور چترال سکاؤٹ کی چوکی بھی شندور میں موجود ہے۔ پہلے گلگت میں لوگوں کو شیعہ اور سنی کے نام پر لڑایا جاتا تھا اور اب چترالیوں اور گلگتیوں کو آپس میں لڑانے کی سازش کی جا رہی ہے۔'
جس پر سابق رکنِ قانون ساز اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف راجہ جہانزیب کا کہنا تھا کہ سرحدوں کی تقسیم کے عالمی قانون واٹرشیڈ کے تحت شندور گلگت بلتستان کے حصے میں آیا ہے، اور مستوج کو بھی گلگت کا حصہ قرار دیا جارہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کی نمائندگی نہ ہونے کا فائدہ اٹھا کر مختلف معاملات اور خاص کر جغرافیائی سرحدوں میں مداخلت کی جارہی ہے۔ 'خیبرپختونخوا حکومت غیرضروری ہتھکنڈوں سے باز آ جائے بصورت دیگر گلگت بلتستان کی سرحدی حدود میں بار بار مداخلت کے خلاف ہمیں عالمی عدالت انصاف کے دروازے پر دستک دینی ہو گی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب قوم پرست رہنما نواز خان ناجی بھی کہتے ہیں کہ 'یہ دو گاؤں کا مسئلہ ہے، جسے مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے۔ اس میں حکومتوں کو نہیں الجھنا چاہیے۔ ان کے اپنے سیاسی مقاصد ہوتے ہیں اور اس سیاسی مقاصد کا لاسپور اور گولاغموڑی کے عوام سے کوئی سروکار نہیں۔'
لاسپور کے شہزادہ ابراہیم بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ 'یہ ایک عوامی مسئلہ ہے، یعنی دو بھائیوں کا آپس کا جھگڑا، جس میں سرکار کو الجھنے کی ضرورت نہیں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ گلاغموڑی اور لاسپور کی معشیت کا دارومدار شندور پر ہے، لہذا کوئی اسلام آباد میں بیٹھ کر ہماری جائیداد پر کیسے قابض ہو سکتا ہے اور ہمیں کیسے بے دخل کر سکتا ہے؟ ہم لوگ صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ شندور فیسٹیول بھی ہم ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر منعقد کریں گے۔ اس میں بھی مرکزی حکومت کو دخل اندازی کرنے کی ضرورت نہیں۔'
شفیق حسن یفتالی کا تعلق بھی لاسپور ہر چین سے ہے، وہ کہتے ہیں کہ 'ہم لوگ جون کی پہلی تاریخ سے اکتوبر کے آخر تک شندور میں رہتے ہیں اور ہمارے گھر وہاں موجود ہیں۔ ہمارے مال مویشی لنگر تک جاتے ہیں اور ان کے مال مویشی شندور تک آتے ہیں۔ ان لوگوں نے ہمارے آپس کے مسئلے کو سیاسی بنا دیا ہے۔'
کالم نگار اور محقق عزیز علی داد کا کہنا ہے کہ یہ باؤنڈریاں نئی بنی ہیں جبکہ چترال اور گلگت بلتستان کے تعلقات اور روایات بہت پرانے ہیں۔ 'ہم صدیوں سے مل جل کر رہ رہے ہیں۔ حکومت پارک بنائے اور گلگت اور چترال کے دونوں اطراف بسنے والے عوام کو ان کا حق دے اور قابض نہ ہو۔'
اس سلسلے میں سی پیک کے دفتر میں معلومات کی عرض سے فون کیا گیا لیکن کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
اس تمام معاملے میں ایک طرف عوام ہے اور دوسری طرف اسمبلی میں بیٹھے ہوئے عوامی نمائندے۔ عوام کے شندور میں معاشی مفادات ہیں اور نمائندوں کے سیاسی مفادات، تاہم سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے بھی عوام کو اپنے فیصلوں سے باخبر رکھنا اور اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ اگر نیشنل پارک بن بھی جاتا ہے تو اس کا فائدہ دونوں طرف کے عوام کو ہونا چاہیے نہ کہ اوپر بیٹھے چند افراد کو۔