پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست

سنسنی خیز فلموں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ آخر تک پتہ نہیں چلتا کہ ہیرو کون ہے اور ولن کون۔ ہماری سیاست کی کہانی بھی ایسی فلموں سے ملتی جلتی ہے۔

(اے ایف پی)

سنسنی خیز فلموں کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ ابتدا سے ہی دیکھنے والوں کو جکڑ لیتی ہیں۔ کسی واردات یا واقعے کے تانے بانے جوڑنے میں فلم اختتام تک کب پہنچتی ہے معلوم ہی نہیں ہوتا مصنف ہر اگلے سین میں دیکھنے والوں کا غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ایسی فلموں کی کامیابی اسی میں ہوتی ہے کہ جیسا ناظرین سمجھ رہے ہوتے ہیں سب اس کے برعکس ہوتا چلا جاتا ہے، جس کے لیے کبھی سب سے معصوم کردار کو کہانی کا اصل محور یا خود تفتیش کار کو ہی مجرم ثابت کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان کی سیاست بالخصوص گذشتہ دو دہائیوں کا جائزہ لیں تو یہ بھی کسی سسپنس تھرلر فلم سے کم نہیں۔

پرویز مشرف نے 2002 کے انتخابات کرائے تو ان کی حمایتی جماعت مسلم لیگ ق کو سادہ اکثریت نہ مل سکی۔ سب دوسری جماعتوں کو ملانے کی جمع تفریق میں لگے تھے کہ اچانک ایک نیا گروپ پیٹریاٹ کے نام سے سامنے آ گیا اور نمبر پورے کر لیے گئے۔

وزرات عظمیٰ کے لیے بڑے بڑے نام زیر بحث رہے لیکن اچانک قرعہ میر ظفر اللہ جمالی کے نام نکل آیا جو دوڑ میں شامل ہی نہ تھے۔ گویا بقولِ شاعر: منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمالی کی اچانک رخصتی چوہدری شجاعت کی ڈیڑھ ماہ کی وزرات عظمیٰ جیسے حیران کن ٹوئسٹ بھی کہانی میں آئے ایسا ماحول بھی بنا کہ طویل عرصے تک حکمرانی کے خواب دیکھنے والے پرویز مشرف کو اچانک صدارت چھوڑنا پڑی۔ بےنظیر بھٹو کی موت، آصف علی زرداری کی اچانک انٹری پھر صدرات کا عہدہ، پھر ہر روز گرتی حکومت کے پانچ سال ہر جگہ نتیجے اخذ کرنے والے غلط ثابت ہوتے رہے۔

نواز شریف کا تیسرا اقتدار، عمران خان اور طاہر القادر ی کے دھرنے، قربانی سے پہلے قربانی، کچھ بھی ایسا نہ ہوا جو سوچا جارہا تھا۔ پھر 2016 میں جب سب کچھ حکومت کے قابو میں آ گیا یہاں تک کہ اگلے انتخابات میں بھی ن لیگ کی کامیابی کی پیشن گوئیاں کی جانے لگیں کہانی میں پاناما لیکس کی صورت میں نیا ٹوسٹ آ گیا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا اور مزید پانچ سال حکومت کا خواب تو دور پارٹی کی بقا بھی ایک مسئلہ بن گیا۔

عمران خان کا حکومت میں آنا کہانی کا کوئی ٹوئسٹ نہیں تھا لیکن اس کے بعد تو ناظرین کو ہر سین میں نیا دھچکہ لگا۔

’جب آئے گا عمران‘ کے بعد دکھائے جانے والے خواب جب ایک ایک کر کے یو ٹرنز کی نذر ہونے لگے اور کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کی امید لگانے والوں کو جب اپنی نوکریاں اور گھر بچانے کی فکر لگی تو سیاسی منظر نامے پر پھر اگر مگر شروع ہو گیا۔

22 سال کی جدوجہد کے بعد برسر اقتدار آنے والے عمران خان کے اقتدار کے 22 ماہ بعد ہی ان کے جانے کے باتیں ہونے لگیں۔ جس نے سیاسی پکچر میں نیا سسپنس پیدا کر دیا۔ ایسا سسپنس جس نے نہ صرف عوام بلکہ خود حکومتی جماعت کے لوگوں کو بھی اپنے سحر میں لے لیا۔ سیاسی اور عوام ڈرائنگ رومز میں ’کون بنے گا نیا وزیر اعظم‘ کی بحث چھڑ گئی۔

عوام بھی پورے دھیان سے یہ سیاسی پکچر دیکھ رہے ہیں کہ شاید انہیں آگے کی کہانی کی نوعیت کا اندازہ ہو جائے لیکن ایسا ہو جائے تو سسپنس کیسا اور تھرل کہاں کا! فلم میں تو کہانی، کردار، مکالمے سب پہلے سے تیار ہوتا ہے، عکس بندی ہو چکی ہوتی ہے۔ پردہ سکرین پر آنے کے بعد اس میں تبدیلی ممکن نہیں ہوتی، لیکن سیاسی پکچر میں سکرپٹ لکھ بھی دیا جائے تو عکس بندی باقی رہتی ہے اور آخری لمحات تک اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ کسی بھی وقت صورت حال کے مطابق کہانی میں تبدیلی کر دی جائے اور کوئی ایسا ٹوسٹ آ جائے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔

سسپنس تھرلر فلموں کے اختتام کو انتہائی حیران کن اور ناقابل تصور بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اکثر فلم کے اختتام پر اچانک کوئی معمولی کردار غیر معمولی اہمیت اختیار کرتے ہوئے تمام تر توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ اور اپنے یہاں کے سیاسی تھرلرز میں بھی ایسا ہو جانا کوئی انہونی نہیں۔

اس لیے دل تھام کے توجہ کے ساتھ سیاسی کہانی کو دیکھتے جائیں ضروری نہیں کہ جو سب سوچ رہے ہیں ویسا ہی ہو۔

اور ہاں سسپنس فلموں میں کئی بار جب بظاہر کہانی ختم ہو جاتی ہے اور شائقین اپنی چیزیں سنبھال کر کرسیوں سے اٹھنے کی تیاری کرنے لگتے ہیں تو کوئی اچانک کوئی نیا ٹوسٹ انہیں دوبارہ بیٹھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

اس لیے کہانی کو اس وقت تک ختم نہ سمجھیں جب تک سکرین پر لکھا نہ آ جائے۔

 THE END

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ