قسطنطنیہ [حالیہ استنبول] عیسائی اور یونانی ثقافت کا مرکز رہا ہے۔ مشرقی روم سلطنت کے دنوں میں آیا صوفیہ گرجا گھر تھی۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں یہی جگہ مسلم ورثے کی سرکاری علامت سمجھتی جاتی تھی۔
900 سولہ برس تک اسے گرجا گھر کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اب اس تاریخی مقام کا شمار دنیا کے آٹھ عجوبوں میں ہوتا ہے۔ اسی لیے آیا صوفیہ کو ’دنیا کا دل‘ کہا جاتا ہے۔
عثمانیوں نے 1435 میں استنبول فتح کیا تو سلطان محمد الفاتح نے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کر دیا، تاہم اس کا نام ’آیا صوفیہ‘ ہی برقرار رکھا۔ اسے 1934 تک مسجد کا درجہ حاصل رہا، تاہم کمال اتاترک کی کابینہ کے ایک فیصلے کے بعد اسے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔
اب ایک ترک عدالت نے گذشتہ دنوں 1934 کے متنازع فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے آیا صوفیہ کی حیثیت کو مسجد کے طور پر دوبارہ بحال کیا تو اس پر مغربی دنیا بالخصوص امریکہ، یونان اور فرانس نے شدید تنقید کی۔ صدر رجب طیب اردوغان نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے ان الزامات کو ’ترک اقتدار اعلیٰ کی توہین‘ قرار دیا۔
مسلمہ قانون کے مطابق عالمی ورثہ قرار پانے کے باوجود آیا صوفیہ پر ترکی کی ملکیت بدستور قائم ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں حکومت پنجاب وقتاً فوقتاً لاہور کے شاہی قلعے میں محفل موسیقی برپا کرتی ہے حالانکہ یونیسکو نے اسے [شاہی قلعہ] بھی عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے؟ ایسے میں اگر ترکی نے آیا صوفیہ میں اذان وجماعت کا سلسلہ شروع کر دیا تو اس سے بھی تاریخی عالمی ورثے کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا؟
صورت حال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مغربی دنیا کی آیا صوفیہ کی حیثیت میں تبدیلی پر کی جانے والی تنقید کا تعلق عبادت سے زیادہ سیاست سے ہے۔ ترک عدالت کے حالیہ فیصلے کے باوجود یہ تاریخی ورثہ دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کے لیے کھلا رہے گا جیسے استنبول میں واقع دسیوں دوسری بڑی مساجد روزانہ آنے والے ہزاروں سیاحوں کے لیے کھلی رہتی ہیں۔
فرانس میں رومن کیتھولک کی مشہور عبادت گاہ نوٹردے ڈیم کیتھرڈل اور سیکرکیا بیسیلیکاSacré-Cœur Basilica سیاحوں اور عبادت کے لیے کھلے ہیں۔ اسی طرح ترک حکام نے بھی یہ یقین دہانی کرائی ہے آیا صوفیہ عبادت کے ساتھ بدستور عالمی ورثے میں ایک نگینے کے طور برقرار رہے گی۔
ایک طرف امریکہ نے آیا صوفیہ کی بطور مسجد بحالی کو ’قبضہ‘ قرار دیتے ہوئے انقرہ سے اسے دوبارہ عجائب گھر بنانے کا مطالبہ کیا ہے تو دوسری طرف مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے سے متعلق حالیہ امریکی اقدام کی کسی دوسرے ملک کی طرف سے حمایت دیکھنے میں نہیں آئی۔
دسمبر 2017 میں امریکہ نے بین الاقوامی برادری کے اصولی موقف کے برعکس یروشلم کو غیرقانونی طور پر اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر ضم کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر شام میں گولان کی پہاڑیوں پر صہیونی ریاست کا ناجائز قبضہ بھی بقلم خود تسلیم کر لیا۔
علاقائی بدامنی کا منبع تلاش کرنے کے لیے امریکہ نے شاید غلط جگہ کا انتخاب کر لیا ہے۔ واشنگٹن کئی دہائیوں سے فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے والے اسرائیلی اقدامات کی حمایت کرتا چلا آ رہا ہے۔ فلسطینیوں کی چرائی گئی زمینوں پر اسرائیلی یہودیوں کے لیے غیرقانونی بستیاں تعمیر کی جا رہی ہیں جہاں اسرائیلی شہریت پانے والے یہودی آباد کاروں کو تمام شہری حقوق حاصل ہیں جبکہ فلسطینی، صہیونی فوجیوں کے تسلط میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ترکی کو’عقیدے کی روایات اور متنوع علاقائی تاریخ کے احترام‘ کا درس دیتے ہوئے آیا صوفیہ کو سب کے لیے کھلا رکھنے پر زور دیا ہے، وہیں انہیں یروشلم میں مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی قبضے سے متعلق بھی اسی شد ومد سے بات کرنی چاہیے۔
آیا صوفیہ کوعبادت کے لیے کھولنا کسی قابض اتھارٹی کا غیرقانونی فیصلہ نہیں جبکہ دوسری جانب مسجد اقصیٰ پر عائد پابندیاں اور مسلمانوں کو وہاں آزادانہ عبادت کی اجازت نہ دینا درحقیقت قابض اسرائیل حکومت کی جانب سے بین الاقوامی قانون اور کنونشز کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
یروشلم شہر یہودیت، عیسایئت اور اسلام جیسے توحید پرست تینوں ادیان کے لیے مقدس شہر ہے، جہاں ان کے مذہبی اہمیت کے مقامات واقع ہیں۔ اسرائیلی انضمام کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی تائید دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اناجیلی عقائد کے پیروکارامریکی عیسائیوں کے موقف سے تو ہم آہنگ ہو سکتی ہے، تاہم یہ بات اسرائیلی فوجی قبضے کے حق میں ٹرمپ کی حمایت کو سند جواز فراہم نہیں کرتی۔
آیا صوفیہ سے متعلق حالیہ فیصلے کے تناظر میں ترکی پر تنقید کرنے والوں میں منافقت کا عنصر نمایاں دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ مسلمان ورثے کو عموماً نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
قرطبہ سٹی کونسل کے زیر انتظام 2017 کو شائع ہونے والے رسالے میں بشپ آف قرطبہ فرنینڈس گونالز نے شہر میں آٹھویں صدی کی عظیم جامع مسجد کے طرز تعمیر کے بارے میں کہا تھا کہ ’یہ مسلمانوں کا [طرز تعمیر] نہیں، یہ بازنطینی ہے۔ یہ عیسائی بازنطینی ہے۔ مراکش [مغرب] کے مسلمان باسی ’موروں‘ نے صرف اس کی تعمیر کا خرچ دیا تھا۔‘
دانشور برادری سمیت سپین کی مقامی قومی شخصیات نے اس دھماکہ خیز بیان کی فوراً تردید کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلقان اور یونان میں بسنے والی ترک مسلم اقلیتیں کئی برس تک اپنے مذہب پر آزادانہ عمل نہ کرنے کی شکایت کرتی رہی ہیں۔ انہیں اپنے امام اور اوقاف کے منتظمین کے چناؤ کا اختیار بھی نہیں، ان کا تقرر بھی مقامی حکومتیں کیا کرتی تھیں۔
اپنے قیام کے بعد سے اسرائیل سینکڑوں فلسطینی مساجد، قبرستان اور مسلمانوں کے دوسرے مذہبی مقامات تباہ کر چکا ہے۔ جافا، لد، عسقلان، الخلیل اور متعدد دوسرے فلسطینی شہروں میں درجنوں مساجد کو شراب خانوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہودیوں نے طبریا کے مقام پر الظاہر عمر نامی مسلم حکمران کے دور (1743) میں تعمیر ہونے والی ’البحر مسجد‘ کو بھی مسلمانوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے برعکس شراب خانے میں تبدیل کیا۔
آج بھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی جائے وفات الخلیل شہر کی ’مسجد الخلیل‘ یہودیوں کی جارحیت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ مسجد اقصیٰ کے خلاف آئے روز اٹھائے جانے والے شرم ناک اقدامات اسرائیلی جارحیت کا ایک مستقل عنوان ہیں۔
اسرائیلی شہر صفد کی بلدیہ نے گذشتہ برس تاریخی لال مسجد [مسجد الاحمر] کو مے خانہ اور کیمونٹی سینٹر میں تبدیل کر دیا۔ قیام اسرائیل ’المعروف نکبہ‘ 1948 کے موقعے پر یہودی جتھوں نے لال مسجد پر قبضہ کر لیا تھا۔ مسجد کو پہلے یہودی سکول، ایک سیاسی جماعت کے انتخابی دفتر، کپڑوں کا گودام اور بالآخر نائٹ کلب بنایا گیا۔
صد حیف! اسرائیل کے ان تمام جرائم پر دنیا صم، بکم وعمی کی عملی تفسیر بنی ہوئی ہے۔ سیاست دان اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کی مجرمانہ کارروائیوں سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ صہیونی ریاست کے خلاف بات کرنے والوں پر یہود مخالفت ‘anti-Semitism’ کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ منافقت ختم کر کے ہی دین اسلام امن اور استحکام کا عنوان بن سکتا ہے۔
ترکی کی جانب سے آیا صوفیہ عجائب گھر کو مسجد میں تبدیل کرنا علاقائی امن کے لیے خطرہ نہیں بلکہ اسرائیل کے غیرقانونی اقدامات، جلد یا بہ دیر نعوذ باللہ، خطے کا امن ضرور تباہ کر دیں گے۔