چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور عسکری قوت کی وجہ سے اس کو محدود یا محصور رکھنے کی پالیسی (containment) امریکہ کی پچھلی دونوں حکومتوں کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ رہا ہے۔
صدر براک اوباما نے پیوٹ ایشیا (Pivot Asia) کی پالیسی کا آغاز کیا جس کا بظاہر مقصد تو براعظم ایشیا پر زیادہ توجہ دینی تھی اور اس خطے میں امریکہ کی عسکری قوت میں اضافہ کرنا تھا، لیکن جان بوجھ کر یا نادانستہ طور پر اس ساری پالیسی کا محور چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور فوجی قوت کو روکنا نظر آنے لگا۔
اس کے نتیجے میں چین نے اپنی معاشی اور دفاعی سلامتی کے لیے متعدد اقدامات اٹھانے شروع کیے جن میں بحیرہ جنوبی چین پر چین کی پوری عمل داری کا بھی اعلان تھا۔
مصنف کی آواز میں یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
اپنی معاشی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اب تقریباً سارے ممالک جو بحیرہ جنوبی چین سے منسلک ہیں وہ ہچکچاہٹ یا ترغیب سے چین کی برتری ماننے لگے ہیں۔ سوائے آسٹریلیا اور ویتنام کے باقی ممالک چین سے اس سلسلے میں افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔
پیوٹ ایشیا پالیسی میں بھارت کا بھی اہم کردار تھا اور امریکہ کی یہ کوشش رہی کہ بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کر کے ایشیا میں طاقت کا توازن لایا جائے جو امریکہ کے لیے سود مند ہو۔ اس سلسلے میں بھارت کے ساتھ بہت لاڈ و پیار، معاشی اور عسکری امداد کا سلسلہ شروع ہوا۔
صدر اوباما نے اپنے آٹھ سالہ دور حکومت میں دو بار بھارت کا دورہ کیا اور وہ 2015 میں خصوصی طور پر بھارتی قومی دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے بھارت آئے۔ صدر اوباما نے بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا کہ امریکہ بھارت کی سکیورٹی کونسل میں مستقل نشست کی کوششوں کی حمایت کرے گا۔ 2016 میں ایک معاہدے کے تحت بھارت کو امریکہ کا بڑا دفاعی ساتھی قرار دیا گیا۔
صدر ٹرمپ نے بھی چین کو محدود رکھنے کی پالیسی جاری رکھتے ہوئے اسی سال بھارت کا دورہ کیا۔ گو بھارت اور امریکہ میں کچھ تجارتی اختلافات ہیں مگر خطے کی حکمت عملی اور دفاعی معاملات میں دونوں ممالک کی سوچ یکساں ہے۔
بھارت کے امریکہ سے بڑھتے ہوئے تعلقات نے دہلی کے رویے میں خطے کے معاملات میں جارحانہ پن کا اضافہ کر دیا۔ پاکستان سمیت تمام چھوٹے ہمسایہ ممالک سے ایک جارحانہ رویہ صاف نظر آنے لگا۔ حتیٰ کہ چین کے معاملے میں بھی اس رویے کا اظہار دکھائی دینے لگا۔
چین کے ساتھ سرحدی علاقے میں عسکری قوت بڑھانے کی کوششیں اسی بھارتی رویے کا مظہر تھیں۔ پچھلے سال بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کا تشخص بدلنا، پاکستان پر فضائی حملے اور گلگت اور بلتستان پر چڑھ دوڑنے کی دھمکیاں، چین کے لیے واضح پیغام تھا کہ اس خطے میں بھارت ایک بڑی طاقت ہے اور چین کو اپنے علاقائی منصوبوں اور خصوصاً سی پیک جیسے پروگرام پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
امریکہ کی ایما پر بھارت کے اس بڑھتے ہوئے کردار اور خطے میں جارحانہ رویے کا چین نے اپنے انداز سے جواب دینا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے چین نے بحیرہ جنوبی چین پر اپنی پوری عمل داری کا اعلان کیا اور بحیرہ میں اپنے بحری بیڑے اور دفاعی قوت میں اضافہ کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ اپنی معاشی قوت اور سیاسی اثر کو بڑھانے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا آغاز کیا جس کے تحت ایشیا، افریقہ اور یورپ کو آپس میں ملانا شامل تھا۔ اس ترقیاتی منصوبے کے آغاز سے اب تک 71 ممالک اس میں حصہ لے رہے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں اس منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان میں 2015 میں سی پیک منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ چین نے اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے دیگر ہمسایہ ممالک نیپال، بنگلہ دیش اور بھوٹان سے سیاسی اور معاشی تعاون کو بڑھانا شروع کر دیا۔ یہ ایک طرح سے چین کی بھارت کو محصور اور محدود کرنے کی اپنی پالیسی کا اعلان تھا۔
بنگلہ دیش کے ساتھ 2016 میں 27 معاہدوں پر دستخط کیے گئے جن کے تحت چین نے بنگلہ دیش میں 24 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنی ہے۔ چین نے حال ہی میں بنگلہ دیش کی تقریباً 97 فیصد مصنوعات کو اپنی منڈیوں میں بلا محاصل رسائی دے دی۔ چین کے لیے یہ بھی خوش آئند ہے کہ بنگلہ دیش کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں دراڑیں پڑنی شروع ہو گئیں۔
پچھلے سال اگست میں بھارت میں شہریت کا نیا قانون نافذ کر کے بھارت میں مقیم بنگلہ دیشیوں کو غیرقانونی تارکین وطن قرار دے دیا گیا۔ اس کے خلاف بنگلہ دیش میں سخت مظاہرے ہوئے۔ اس طرح کے اقدامات نے بنگلہ دیش کو چین کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا۔
گو چین اور بھوٹان کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن غیرسرکاری طور پر یہ اپنے سرحدی مسائل کے بارے میں باقاعدگی سے بات چیت کرتے رہے ہیں اور اس سلسلے میں اب تک 24 مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں۔ بھوٹان کو چین نے بھارتی علاقائی برتری کے کھیل سے علیحدہ کرنے اور اسے ایک غیرجانب دار فریق بنانے کے لیے مختلف حکمت عملی اختیار کی ہے۔
چین نے حال ہی میں بھوٹان کے تقریباً 10 فیصد علاقے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔ قیاس ہے کہ اس حکمت عملی کا مقصد بھوٹان پر دباؤ ڈال کر اسے بھارت پر اپنا انحصار کم کرنے کے لیے سوچنے پر مجبور کرنا ہے یا بھارت کے اثر سے نکل کر چین کی طرف دیکھنے پر غور کروانا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیپال میں بھی چینی اثرورسوخ بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ حال ہی میں نیپال کی حکمران جماعت میں اندرونی اختلافات کو وہاں پر متعین چینی سفیر نے حل کرنے کی کوششیں کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چین نے اقتصادی امداد میں بھی نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔
اس مالی سال میں نیپال میں 90 فیصد بیرونی سرمایہ کاری چین نے کی ہے اور پچھلے سال اکتوبر میں 500 ملین ڈالرز کی مالی امداد بھی مہیا کی۔ اس کے علاوہ کروڑوں ڈالرز مختلف ترقیاتی پروگرام کے لیے نیپال کو دیے گئے۔
اسی طرح بھارت پر تجارت میں اپنے انحصار کو کم کرنے کے لیے نیپال نے چین سے پچھلے سال ٹرانزٹ پروٹوکول پر دستخط کیے جس کے تحت نیپال کو چار چینی بندرگاہوں اور تین زمینی بندرگاہوں تک رسائی حاصل ہوگی۔ چین اور نیپال کے درمیان براہ راست انٹرنیٹ رابطہ بھی قائم کر دیا گیا ہے۔ اب نیپال بھارت پر پہلے کی طرح اس ٹیکنالوجی کے لیے انحصار نہیں کرے گا۔
نیپال نے پہلے سے ہی چین کے ساتھ سلامتی کے بھی معاہدے کیے ہوئے ہیں۔ دہلی اور کھٹمنڈو کے تعلقات میں حال ہی میں مزید ابتری اس وقت آئی جب بھارت نے نیپال کی اجازت کے بغیر اس کے علاقے میں 80 کلومیٹر لمبی سڑک بنائی۔
اسی طرح چین حال ہی میں ایران کو بھی بھارت سے قدرے دور لانے میں کامیاب ہوا ہے۔ ایران نے کچھ دنوں پہلے بھارت کو چابہار سے چلنے والی ٹرین منصوبے سے علیحدہ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم گیس کے ذخیرے کے ترقیاتی منصوبے سے بھی اسے علیحدہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ایران کو اپنے قریب لاتے ہوئے چین کی ایران میں 400 ارب ڈالرز کے ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں بھی اطلاعات آنی شروع ہوگئی ہیں۔ ایران کے موجودہ مخدوش اقتصادی حالات میں یقیناً ایران چین تعلقات میں اضافہ بھارت کے خطے میں اثرو رسوخ میں نمایاں کمی پیدا کر دے گا۔
خطے میں ان تمام چینی اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے بھارت کے سیاسی اثر و رسوخ کو کامیابی سے محدود کرنا شروع کر دیا ہے۔ چین کے لداخ میں حالیہ عسکری اقدامات نے بھارت کی نام نہاد فوجی قوت کی قلعی بھی کھول دی ہے۔ یہ چین کی طرف سے بھارت کو ایک طرح کا کھلا پیغام بھی تھا کہ اس کی سی پیک کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش بھی برداشت نہیں کی جائے گی۔
ہمیں ان سازگار حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چین کے ساتھ اپنے دفاعی اور اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ان تعلقات میں گہرائی لاتے ہوئے ہمیں ایک خود دار اور آزاد ملک کی طرح اپنے مفادات کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے خطے میں امن اور پائیدار معاشی ترقی کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔