’تحفظ بنیاد اسلام بل‘ کا حاصل چند اہم سوالات ہیں۔ آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تحفظ بنیاد اسلام بل کی ضرورت کیا تھی؟ اس بل کا مقصد اگر شعائر اور مقدس ہستیوں کے احترام کو یقینی بنانا تھا تو یہ قانون تو پہلے ہی سے موجود تھا۔
تعزیرات پاکستان میں ’مذہب کے خلاف جرائم‘ کے عنوان سے ایک پورا باب موجود ہے۔ دفعہ 295 کے تحت کسی مذہب کی عبادت گاہ کی بے حرمتی کی سزا دو سال تک قید یا جرمانہ ہے۔ 295 اے کے تحت پاکستان کے کسی بھی شہری کے مذہبی جذبات اور مذہبی عقائد کی توہین کی سزا دس سال تک قید یا جرمانہ ہے۔ 295 بی کے تحت قرآن کریم کی توہین کی سزا عمر قید ہے۔ 295 سی کے تحت توہین رسالت کی سزا موت ہے۔ 296 کے تحت کسی مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنے کی سزا ایک سال تک قید یا جرمانہ ہے۔
297 کے تحت کسی بھی مذہب کے قبرستان میں بلا اجازت گھس کر اس کے ماننے والوں کے جذبات مجروح کرنے کی سزا ایک سال تک قید یا جرمانہ ہے۔ 298 کے تحت مذہبی معاملات میں کسی کی دل آزاری کرنے کی سزا ایک سال سے تین سال تک قید یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ 298 اے کا تعلق مقدس ہستیوں کے احترام سے ہے۔ اس کے مطابق امہات المومنین، اہل بیت، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کی توہین کی سزا تین سال تک قید یا جرمانہ ہے۔
قید اور جرمانے سے متعلق تمام دفعات میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ عدالت چاہے تو قید اور جرمانے کی دونوں سزائیں ایک ساتھ سنا سکتی ہے۔ احترام مذاہب کا یہ قانون جب پورے ملک میں پہلے سے ہی نافذ ہے تو پنجاب اسمبلی کو تحفظ بنیاد اسلام بل لانے کی کیا ضرورت تھی؟
دوسرا سوال پنجاب اسمبلی کے دینی فہم سے متعلق ہے۔ شیعہ سنی اختلافات کی صدیوں پرانی ایک تاریخ ہے۔ ہر مکتب فکر کی اپنی ایک تعبیر ہے اور اس تعبیری اختلاف کے باوجود دونوں مکاتب مسلمانوں ہی کے دو گروہ شمار کیے جاتے ہیں۔ اہم بات اب یہ نہیں کہ اختلاف ختم ہو جائیں کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ اہم یہ ہے کہ اختلاف رائے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا سلیقہ آ جائے۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ اپنے عقیدے پر قائم رہیے لیکن دوسروں کی توہین یا دل آزاری مت کیجیے۔ دل آزاری اور توہین کا تعلق قانون سے ہے اور اس باب میں قانون سازی پہلے ہی کی جا چکی ہے۔ اس کے بعد حفظ مراتب کا معاملہ ہے کہ کون کسے ’رضی اللہ عنہ‘ کہتا ہے اور کون ’علیہ السلام،‘ یہ ہر مکتب فکر کا داخلی معاملہ ہے اور کسی پر قانون کے ذریعے کوئی قدغن عائد نہیں کی جا سکتی۔
شیعہ مسلمان اہل بیت کے لیے ’علیہ السلام‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور اہل سنت کی بعض کتابوں میں شیخ عبد القادر جیلانی کے لیے ’رضی اللہ عنہ‘ لکھا گیا ہے۔ آپ قانون کے ذریعے کسی کو بھی کسی دوسرے کی دل آزاری سے تو روک سکتے ہیں لیکن کیا یہ وظیفہ بھی قانون کا ہے کہ وہ دوسروں کو بتائے انہوں نے اپنی محترم ہستیوں کو کیسے مخاطب کرنا ہے؟
تیسرے سوال کا تعلق پنجاب اسمبلی کے آئینی فہم سے ہے۔ میرا نہیں خیال اس ایوان میں نصف درجن بھی ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے آئین کا مطالعہ فرما رکھا ہو اور جنہیں یہ علم ہو کہ آئین نے جہاں اسلام کو ریاست کا مملکتی مذہب قرار دے رکھا ہے وہاں ہر مکتب فکر کو یہ حق بھی دے رکھا ہے کہ تعبیر دین کے باب میں وہ اپنے مکتب فکر کی رائے پر عمل کرنے میں آزاد ہے اور اس پر کسی دوسرے مکتب فکر کی تعبیر دین اختیار کرنا لازم نہیں ہے۔
آئین پاکستان کا ایک باب اسلامی دفعات سے متعلق ہے۔ وہاں آرٹیکل 227 میں وضاحت کر دی گئی ہے کہ قرآن و سنت کے مفہوم کا جب قانون کی دنیا میں اطلاق ہو گا تو ہر مکتب فکر پر یہ اطلاق اس مکتب فکر کی تعبیر کے مطابق ہو گا۔ آئین سازوں نے اپنے فکری تنوع کو تسلیم کرتے ہوئے آئین میں لکھ رکھا ہے کہ کسی فرقے سے متعلق معاملات میں قرآن و سنت کا مطلب وہی ہو گا جو اس فرقے کے ہاں ہو۔ اب ایک صوبے کی اسمبلی کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے وہ آئین کی مبادیات کے خلاف قانون سازی کر لے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چوتھا سوال پنجاب اسمبلی کے سماجی فہم سے متعلق ہے۔ سوال یہ ہے کیا نیم خواندہ روایتی جاگیردار انہ پس منظر سے مغلوب ہمارے قانون ساز سماجیات کا کچھ فہم رکھتے ہیں؟ ہر معاشرے میں کچھ ’فالٹ لائنز‘ موجود ہوتی ہیں۔ حکومت کا کام انہیں بھر دینا ہوتا ہے تا کہ اختلافات کے باوجود بقائے باہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ پنجاب اسمبلی نے سماج کی اس ’فالٹ لائن‘ کو نمایاں کر دیا ہے۔ معلوم نہیں اب یہ تلخی کہاں تک جائے گی اور کیا رخ اختیار کرے گی۔
مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے، ہمارے سامنے ہے۔ مشرق وسطیٰ کے خطرناک فرقہ وارانہ سیاسی رجحانات ایک عرصے سے پاکستان کی دہلیز پر دستک دے رہے تھے۔ حکمت اور بصیرت کا تقاضا تھا کہ ان رجحانات سے اپنے سماج کو بچایا جاتا۔ ہمارے سماج کی ساخت ایسی ہے کہ ہم ایسی کسی کشمکش کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ پنجاب اسمبلی نے اس کشمکش کی چنگاریاں اپنے سماج میں لا کر رکھ دی ہیں اور ملی یکجہتی کونسل کی اب تک کی ساری کوششوں کو دائروں کا سفر بنا دیا ہے۔ دیکھیے انجام کیا ہوتا ہے۔
آخری سوال کا تعلق پنجاب حکومت کی فکری دیانت سے ہے۔ کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے جو پیچیدگی پیدا کر دی گئی ہے اور ڈائرکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کو جس طرح کے انتظامی اور عدالتی اختیارات بیک وقت دے دیے گئے ہیں اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بل واقعی ’تحفظ بنیاد اسلام‘ کے لیے لایا گیا ہے یا مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے شہری آزادیوں کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے؟
ڈی جی پی آر کی فکری استعداد ہی کیا ہوتی ہے کہ مذہب، فلسفہ، سماجیات اور ادب پر کتابوں کی اشاعت کی اجازت اس سے طلب کی جائے؟ کیا یہ بیوروکریسی کا فاشزم ہے جسے ایک مذہبی عنوان سے مسلط کیا جا رہا ہے؟
افتخار عارف نے کہا تھا:
عجب گھڑی تھی / کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
پنجاب اسمبلی کی تازہ مشق بتا رہی ہے، ہم بھی ایسے ہی لمحے کی گرفت میں ہیں۔