کراچی میں حالیہ مون سون بارشوں کے نتیجے میں شہر میں ہونے والی تباہ حالی نے نہ صرف یہ واضح کردیا ہے کہ شہر میں نکاسی آب کا سسٹم غیر فعال ہے بلکہ یہ بھی کہ شہر قائد کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ ہر سال چند گھنٹوں کی بارش اس شہر کے باسیوں کے لیے عذاب بن جاتی ہے جبکہ اس صورت حال پر وفاق اور صوبے میں سیاست بھی جاری رہتی ہے۔
بارشوں کے بعد بند نالوں اور جگہ جگہ پڑے غلاظت کے ڈھیر پر سیاست کرنے والی سیاسی جماعتیں کراچی کا نظام بہتر طریقے سے چلانے میں ناکام نظر آرہی ہیں اور اسی وجہ سے شہریوں کے مسائل اب پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
مون سون بارشوں اور ان سے ہونے والی تباکاریوں کے پیش نظر وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ روز ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ انہوں نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر کراچی جائیں اور بارش کے بعد صفائی کا آغاز کریں۔
اس ٹویٹ کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ایک اور ٹویٹ کی جس میں ان کا کہنا تھا: 'میں نے پاکستان آرمی سے بھی شہر کی صفائی میں مدد کرنے کا کہا ہے۔'
تاہم اس حوالے سے سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ 'این ڈی ایم اے اور پاکستان آرمی کراچی ضرور آئیں اور آکر خود دیکھیں کہ اصل میں کراچی جو میڈیا دکھا رہا تھا، وہ ہے یا جو ہم بتا رہے ہیں وہ ہے۔'
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں سعید غنی نے یہ واضح کیا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ بارشوں میں پورا کراچی ڈوب گیا تھا۔ ان کے مطابق: 'اصل میں 20 سے بھی کم علاقے متاثر ہوئے تھے، پورا کراچی نہیں۔'
سعید غنی کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کی اتنی بری صورت حال نہیں ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی آکر شہر میں صفائی کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: 'میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو چیزوں کی سمجھ کم ہے، کیوں کہ این ڈی ایم اے قومی ادارہ ہے، جو بڑی قدرتی آفت آنے کی صورت میں کام کرتا ہے۔ اگر اس کام میں ان (این ڈی ایم اے) کی صلاحیت سے زیادہ مسائل ہوجائیں تو اس صورت میں پاکستان آرمی کے انجینیئرنگ اور میڈیکل کور کو بلایا جاتا ہے، لیکن اس وقت جو کراچی کی صورت حال ہے اس حوالے سے شاید وزیر اعظم صاحب کو صحیح طرح سے بریفنگ نہیں دی گئی اور شاید میڈیا پر چلنے والی فوٹیجز کی بنیاد پر ہی وزیر اعظم کو یہ لگا کہ پورا شہر ڈوب گیا ہے۔ٓ اور اسی وجہ سے انہوں نے یہ ٹویٹ بھی کردی اور پاکستان آرمی کو بھی آنے کا کہہ دیا۔'
سعید غنی سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا ان کے مطابق این ڈی ایم اے اور پاکستان آرمی کو کراچی آکر صفائی کرنے کی ضرورت ہے تو اس حوالے سے ان کا کہنا تھا : 'اگر وہ بارش کا پانی صاف کرنے آرہے ہیں تو اب وہ پانی نہیں ہے اور اگر نالے صاف کرنے آرہے ہیں تو شاید یہ ان کے علم میں نہیں ہے کہ کراچی میں بڑے نالے کے ایم سی اور چھوٹے نالے ڈی ایم سی صاف کرتی ہے۔'
رواں برس سندھ حکومت نے ورلڈ بینک کے تعاون سے کراچی میں 'سویپ' نامی مہم کا آغاز کیا ہے جس کی مد میں ورلڈ بینک کی جانب سے سندھ حکومت کو 13.5 کروڑ ڈالر بھی جاری کیے گئے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے دو دن قبل پی ٹی آئی کے رہنما خرم شیر زمان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران سندھ حکومت سے سوال بھی کیا کہ 'سندھ حکومت نے شہر کی صفائی کے لیے ورلڈ بینک سے جو سوا ارب روپے لیے ہیں وہ کہاں گئے۔ ہم ورلڈ بینک کو خط لکھ رہے ہیں کہ اس رقم کی تحقیقات کی جائیں۔'
پی ٹی آئی رہنما کا مزید کہنا تھا: 'پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ نالوں پر تجاوزات بن گئی ہیں۔ ان تجاوزات کا ذمہ دار کون ہے؟ صوبہ سندھ میں 33 ارب روپے لگے مگر کہاں لگے، پتہ نہیں۔ ہر سال چالیس سے پچاس کروڑ روپے کراچی کے چھ نالوں کی صفائی کے نام پر خرچ کیے جاتے ہیں، بلاول زرداری آپ نے کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کیا ہے۔'
البتہ سندھ حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ انہوں نے اس رقم سے تمام عوامی مقامات جیسے کہ بس سٹینڈز/سٹاپس، دفاتر، سڑکوں اور عوامی علاقوں کی مناسب صفائی، طوفان/ بارش کے بعد پانی کی نالیوں اور نالوں کی صفائی کروائی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے دو کچرا منتقلی سٹیشنز اور دو لینڈ فل سائٹس بھی قائم کیے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ان دعوؤں کے باوجود بارشوں کے بعد کراچی کی صورت حال انتہائی ابتر ہوجاتی ہے۔ ہم نے جب پی پی پی کے سینیئر رہنما سعید غنی سے یہ پوچھا کہ بارشوں کے بعد پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کی اتنی بری صورت حال نہیں ہوتی جیسی کراچی کی ہوجاتی ہے، تو ایسا کیوں ہے؟
اس پر ان انہوں نے کہا: 'کراچی میں ہزاروں علاقے ہیں اور ہزاروں علاقوں والے شہر میں اگر 20 سے 25 علاقوں میں یہ مسائل آئے ہیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پورا شہر پانی میں ڈوب گیا تھا۔'
اس حوالےسے ان کا مزید کہنا تھا: 'اسلام آباد ایک منصوبے کے ساتھ بسایا گیا شہر ہے جبکہ کراچی کی گروتھ بغیر کسی منصوبہ بندی کے تحت ہوئی ہے۔ کراچی شہر میں بدقسمتی سے جو آج سب سے زیادہ واویلا مچاتے ہیں ان کے ہی دور میں نالوں کو بھی بیچا گیا اور نالوں پر دکانیں اور عمارتیں بنائی گئیں۔ مگر یہ کھاتا بھی ہمارے ذمے ڈال دیا گیا ہے۔'
سعید غنی کا مکمل انٹرویو