بلوچستان کے ضلع چمن میں پاکستان افغانستان سرحد کی بندش کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران فائرنگ اور شیلنگ کے باعث ایک خاتون سمیت تین افراد ہلاک جبکہ 22 زخمی ہوگئے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق تاجر اور افغان باشندے سرحد کی بندش کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے جو بعد میں مشتعل ہوگئے۔ حکام کے مطابق مظاہرین نے باب دوستی کے ساتھ بیریئرز اکھاڑے، توڑ پھوڑ کی اور امیگریشن کے دفاتر کو آگ لگادی جبکہ بارڈر منیجمنٹ سسٹم کے لیے نادرا کے لگے کمپیوٹر رومز کو بھی نذر آتش کیا گیا۔
حکام کے مطابق چمن سرحد کو عید کے موقعے پر دو روز کے لیے کھولنے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم جمعرات کو اس کے بند ہونے پر مظاہرین مشتعل ہو گئے اور ریڈ زون میں داخل ہوکر گیٹ کو زبردستی کھول دیا۔
اسسٹنٹ کمشنر چمن ذکا اللہ درانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حالات اس وقت کشیدہ ہوگئے جب سرحدی حکام نے گیٹ کو بند کردیا جس پر مظاہرین نے احتجاج شروع کردیا اور گیٹ نہ کھولنے پر سرحد پر توڑ پھوڑ شروع کردی اور گیٹ کو زبردستی کھول دیا۔
ذکا اللہ کے بقول مظاہرین کی طرف سے گیٹ کو زبردستی کھولنے کے بعد کئی افغان مہاجرین بھی سرحد پار گئے بلکہ مظاہرین نے سرحد کے قریب قرنطینہ سینٹر کو نذر آتش کرکے سامان لوٹ لیا بلکہ دیگر سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔
انہوں نے بتایا کہ جلاؤ گھیراؤ اور فائرنگ کے واقعات میں خاتون سمیت تین افراد ہلاک جبکہ 22 زخمی ہوگئے جنہیں ابتدائی طبی امداد کے لیے ڈسٹرکٹ سول ہسپتال منتقل کردیا گیا اور بعد میں بعض زخمیوں کو مزید علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کردیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے انتظامیہ نے شیلنگ کی جبکہ سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کی۔
اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق صورت حال اب بھی کشیدہ ہے اور مظاہرین سرحد کے قریب دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور کچھ سول ہسپتال کے باہر موجود ہیں۔
اسسٹنٹ کمشنر ذکا اللہ کے بقول مظاہرین گیٹ کھولنے کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ سرحدی حکام نے انہیں دھرنا ختم کرنے کا کہہ دیا ہے اور مظاہرین یہ مطالبہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
دوسری جانب مظاہرین میں شامل ایک شخص قاسم اچکزئی نے واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا: 'ہم آج صبح باب دوستی کے مقام پر جمع ہوئے اور گیٹ کھلنے کا شدید گرمی میں انتظار کرتے رہے۔ ہمارے ساتھ خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی تاہم حکام نے گیٹ نہیں کھولا۔'
قاسم اچکزئی کے بقول اس صورت حال کے باعث سرحد کے قریب موجود لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ شروع کیا۔
ان کا دعویٰ تھا سرحد پر تعینات سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے ہلاکتیں ہوئیں۔
سوشل میڈیا پر بھی ٹرینڈ چل رہا ہے جس میں سکیورٹی فورسز پر مظاہرین پر فائرنگ کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
پاکستان افغان سرحد کو کرونا کی وبا کے باعث دو مارچ کو آمد ور فت اور تجارت کے لیے بند کر دیا گیا تھا تاہم بعد میں سرحد کو تجارت اور ہفتے میں ایک دن آمد ورفت کے لیے کھولا گیا۔
چمن سرحد کی بندش کے خلاف آل پارٹیز اور تاجر اتحاد جنہیں مقامی زبان میں لغڑی کہتے ہیں دھرنا دئیے ہوئے ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ سرحد کو کرونا کی وبا سے پہلے کی صورت حال کی طرح کھولا جائے۔
انتظامیہ کے مطابق صورت حال کو کنٹرول کے لیے سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری طلب کرلی گئی اور ضلعی انتظامیہ کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔
دوسری جانب وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیا لانگو نے واقعے کو ناخوشگوار قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اپنے شہریوں کا پورا احساس ہے۔
کوئٹہ میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے قرنطینہ مرکز اور نادرا کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحد کو بند کرنے کا مقصد دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنا تھا اور اس سے متاثر ہونے والے چمن کے رہائشیوں کو لیویز، پولیس اور ایف سی میں بھرتی کرنے کی پیشکش کی گئی۔
ان کے مطابق مظاہرین روزگار نہ ہونے کی وجہ سے سراپا احتجاج تھے۔
میرضیا لانگو نے مزید کہا: 'احتجاج کا مقصد بارڈر پار کرنا تھا، تاہم نادرا آفس اور قرنطینہ سینٹر پر حملہ کیا گیا۔'
انہوں نے کہا کہ شہریوں پر براہ راست فائرنگ کرنا درست نہیں تھا اور اس واقعے کی تحقیقات کرکے ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔