جان محمد گزشتہ 50سال سے یہ علاقائی گیم کھیلتے ہیں اور صوبے کے مختلف علاقوں میں جا کر اس گیم کے مقابلوں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔
'ابھی تقریباً 62 سال عمر ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے یہی کھیل اپنے علاقے میں کھیلتا ہوں۔'
اس گیم کو علاقائی زبان میں موخہ کہتے ہیں جو نیزہ بازی کی ایک قسم سمجھی جاتی ہے۔
یہ کھیل دیکھنے جب ہم خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی گئے تو وہاں پر بوڑھے، جوان اور بچے جمع تھے۔چارپائیاں رکھی گئی تھیں جن پر تماشبین بیٹھے تھے اور کھلاڑیوں کو داد دے رہے تھے۔
اس گیم کو کھیلنے کے لیے باقاعدہ طور پر انتظامات کیے جاتے ہیں جن میں جان محمد کے مطابق عموما یہ کھیل کھیلنے کے دوران ڈھول بجایا جاتا ہے جب کہ تماشائیوں کی باقاعدہ خاطر تواضع بھی کی جاتی ہے اور زیادہ تر حجروں میں یہ گیم کھیلی جاتی ہے۔
سفید داڑھی اور لمبے قد والے جان محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ کھیل صوابی میں کئی دہائیوں سے کھیلا جاتا ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ یہ کھیل کئی سو سال پرانا ہے۔
جان حمد کے مطابق یہ گیم مغل دور میں کھیلی جاتی تھی لیکن بعد میں یہ مختلف علاقوں میں مشہور ہوگئی اور اب صوابی سمیت بونیر، چارسدہ، ایبٹ آباد اور پنجاب کے کچھ دیہات میں بھی کھیلی جاتی ہے۔
انھوں نے بتایا 'اس گیم کو ہم موخہ کہتے ہیں، اس میں کمان اور تیر استعمال ہوتا ہے اور ان کی مدد سے نشانہ لینا ہوتا ہے۔
موخہ کیسے کھیلی جاتی ہے؟
جان محمد نے اس گیم کے قوانین پر بھی بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ اس گیم کی ہر ایک ٹیم میں پانچ سے دس کھلاڑی ہوتے ہیں جو تیر اور کمان کے ذریعے سامنے رکھے ہوئے مٹی کے پتلے پر بنی 'ٹکی' کا نشانہ لیتے ہیں۔
اس کے بعد ہر ایک ٹیم سے کھلاڑی 40 مرتبہ نشانہ لگاتا ہے اور جو ٹیم سب سے زیادہ درست نشانے پر تیر مارے تو وہ ٹیم جیت جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انھوں نے بتایا کہ اس علاقے میں اس گیم کے باقاعدہ ٹورنامنٹ منعقد کیے جاتے ہیں جس میں 40 تک ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔
جان محمد نے بتایا کہ نوجوان اور بوڑھے دونوں اس کو کھیلتے ہیں تاہم بوڑھوں کے لیے کمان کی ربڑ کھینچنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے لیکن اگر کھلاڑی ماہر ہوں تو انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
گیم کے لیے تیر کمان کہاں بنتے ہیں؟
اس گیم کو کھیلنے کے لیے تیر کمان کی ضرورت ہوتی ہے اور زیادہ تر ہر کھلاڑی کے پاس اپنا تیر کمان ہوتا ہے جس پر وہ کھیلتا ہے۔
جان حمد نے بتایا کہ زیادہ تر تیر کمان اسی علاقے میں ماہر لوگ بناتے ہے جب کہ ایک خاص قسم کا تیر کمان جسے 'باجوڑ تیر کمان' کہا جاتا ہے ، وہ ضلع باجوڑمیں بنایا جاتا ہے لیکن وہ مہنگا ہوتا ہے اور تقریبا 30 ہزار تک ملتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ باجوڑ کے تیر کمان میں خاص قسم کی جانور کی چربی سے بنا ایک تار استعمال ہوتا ہے جبکہ عام طور پر جو سستا تیر کمان ہے اس میں ربڑ کا تسمہ لگاتے ہیں جو تیر کو کھیچنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔