ترکی میں مقامی حکومتوں کے لیے ہونے والے انتخابات کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ اقتدار پر صدر رجب طیب اردوان کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔
استنبول کے میئر کے لیے اپوزیشن اتحاد کے مشترکہ امیدوار اکرام اِماموگلو، ترکی کے سیاسی اُفق پر چمک دار ستارے کی مانند نمودار ہوئے ہیں۔
اکرام اِماموگلو کی حالیہ کارکردگی سے نہ صرف ترکی کے سیاسی پنڈت بلکہ ان کے اپنے کارکن بھی حیران رہ گئے۔
ابھی تک کے نتائج کے مطابق متحدہ اپوزیشن کو دارالحکومت انقرہ اور استنبول میں برتری حاصل ہے تاہم حکمران انصاف جماعت نے ان انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں کا الزام لگاتے ہوئے نتائج کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان نتائج کو طاقتور صدر اردوان کے اقتدار پر کاری ضرب قرار دیا جا رہا ہے جو 2002 سے ناقابلِ شکست رہے ہیں۔
استنبول میں بے مثال ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے باوجود حکمران جماعت کی مقامی حکومتوں کے انتخابات میں خراب کارکردگی نے صدر اردوان کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
تاہم حکمران جماعت کے آمرانہ رویے کے باوجود حالیہ انتخابات نے ملک میں جمہوریت کی روایات کو قائم رکھا ہے جہاں 84 فیصد ووٹرز نے مقامی نمائندوں کے انتخاب کے لیے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔
متحدہ اپوزیشن اب ملک کے تین سب سے بڑے شہروں میں مقامی حکومتیں قائم کرنے جا رہی ہے جبکہ بائیں بازو کی کُرد نواز پیپلز موومنٹ پارٹی نے بھی ملک کے مشرقی علاقوں میں فتوحات حاصل کی ہیں، جس سے ترک عوام کی جانب سے ملکی معیشت کی بدحالی کے خلاف غصے کا اظہار ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی صدر کی جانب سے ترکی سے برآمدات پر سخت ٹیکس کے نفاذ کے بعد مقامی کرنسی لیرا کی قیمت تیزی سے گر چکی ہے جس سے ملک میں افراطِ زر اور مہنگائی کے امڈ آنے والے طوفان نے عوام کو براہ راست متاثر کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری معاشی بحران نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی اور حالیہ انتخابات کے نتائج اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ عوام نے صدر اردوان کی اقتصادی پالیسی کو ناکام قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔
واٹسن انسٹیٹیوٹ آف براؤن یونیورسٹی سے وابستہ ماہرِ تعلیم سلیم سازیک کا ماننا ہے کہ یہ نتائج صدر اردوان کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’انتخابی مہم سے لے کر امیدواروں کی نامزدگی تک، معیشت سے لے کرغیر ذمہ درانہ بیان بازی تک، صدر اردوان کے تمام فیصلے غلط ثابت ہوئے۔ یہ فلسطین یا شام کا مسٔلہ نہیں تھا بلکہ ان انتخابات سے یہ فیصلہ ہوا ہے کہ ہمارا کوڑا کون اُٹھائے گا۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب آئندہ چار برسوں کے دوران ترکی میں مقامی یا قومی سطح پر کوئی انتخابات نہیں ہونے جا رہے اور سیاست دانوں کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ ملکی معیشت اور خارجہ پالیسی میں بہتری پر مرکوز کریں۔