بڑی مزے کی بات ہے، ہم لوگ ساری عمر پیسے کے چکر میں بھاگتے رہتے ہیں۔ یہ ضروری ہے۔ اس میں کوئی برائی بھی نہیں، کوئی شک نئیں کہ پیسہ ضروری ہوتا ہے لیکن۔۔۔
لیکن ایک عجیب معاملہ یہ بھی ہے کہ ہم جب بھی کبھی مڑ کر زندگی کے بارے میں سوچتے ہیں تو اس وقت لوگ ہمارے دماغ میں آ کے کھڑے ہو جاتے ہیں، پیسے کہیں بھی نظر بھی نہیں آتے۔
مطلب وہ سب جو ہم کما رہے ہیں، خرید رہے ہیں، کھا رہے ہیں، پی رہے ہیں، خرچ کر رہے ہیں وہ سب مڑ کے دیکھنے پر انسانوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہے۔
جیسے آپ اگر آنکھیں بند کریں اور سوچیں کہ جب کالج میں آپ کا پہلا دن تھا تو اس روز کے بارے میں آپ کو یاد اب کیا رہ گیا ہے؟ کیا اس دن کا ناشتہ یاد ہے؟ کیا کھایا تھا؟ کیا پہنا تھا؟ جیب میں رقم کتنی تھی؟ مشکل ہے کہ ایسا کچھ دماغ میں ہو۔
ہاں آپ کو یاد ہو گا کہ وہاں سکول والے کتنے ہی دوست آپ کو پہلے دن مل گئے تھے اور کون لوگ ایسے تھے جو اس دن یکسر انجان تھے مگر بعد میں ساری زندگی بہترین یاریاں نبھاتے رہے۔ آپ کو استادوں کا پہلا پیریڈ یاد ہو سکتا ہے۔ فرسٹ ائیر فول بنے ہوں گے آپ، اس دن کا موسم یاد ہو سکتا ہے، لیکن اس دن یا اس مہینے کی شاپنگ بہت زور دیں گے ذہن پر تو شاید ہلکی پھلکی یاد آ جائے۔
تو کیا میں سوچ لوں کہ بھئی پیسے کے پیچھے بھاگنا بری بات ہے اور مجھے چاہیے کہ میں دولت کی بجائے بندے کماؤں؟
نہیں، یہ نشہ صوفیوں، فقیروں، حال مست لوگوں کو شاید سوٹ کرتا ہو لیکن ہم آپ جیسے یہ سب دھندے نہیں پال سکتے۔ ہم ایک انتہائی چھوٹا سا کام کر سکتے ہیں، وہ ہے پیسے خرچ کرنا۔ دیکھیے پیسے خرچ کر کے ہم وہ لمحے خرید سکتے ہیں جو ہمیں یاد رہ جائیں۔ اس کی چند مثالیں دیکھتے ہیں۔
آپ کبھی مری، سوات، کالام گئے ہوں گے۔ ٹور پیسے مانگتا ہے لیکن اب آپ کو یاد نہیں ہو گا کہ خرچہ کتنا ہوا تھا، سیلری پہ کیا ڈینٹ پڑا، جو حاصل ہو گا وہ تب کی یادیں ہوں گی یا تصویریں۔ سوچتے وقت، زندگی کے اچھے لمحے گنتے وقت، وہ یاد چپکے سے اچھل کر سامنے آن کھڑی ہو گی۔
کبھی آپ نے جی کڑا کے اپنی پسند کی مہنگی ترین کوئی چیز خریدی ہو گی۔ وہ اب یا تو بے کار پڑی ہو گی یا ہو سکتا ہے موجود ہی نہ ہو، لیکن آپ کے پاس ایک لمحہ یاد کرنے کا موجود ہے کہ جب آپ کو احساس ہوا تھا کہ استاد، زندگی اب بڑی مکمل ہے۔
آپ نے کبھی اچانک ماں، بہن، بیٹی، بیوی، گرل فرینڈ یا کسی دوست کو تحفے میں کوئی بڑی چیز دی ہو گی، ابھی خرچہ شاید بھول گیا ہو، لیکن ان کا بے ساختہ خوش ہونا آپ کو یاد ہو گا۔ کسی دکان کے چھوٹے کو آپ نے ایسے ہی اپنی انا بڑھانے کے لیے اچانک ہزار پانچ سو روپے ٹپ دی ہو، یاد ہے وہ آپ کے پاس سے کاؤنٹر تک کیسے ناچتا ہوا گیا تھا؟ کبھی کسی رشتے دار یا دوست کی ایسی ضرورت اچانک پوری کر دی ہو جب اسے امید ہی نہ ہو کہ اب کوئی راستہ بچ گیا ہے؟
یہ سب کام خرچہ مانگتے ہیں۔ کوئی بھی کر سکتا ہے۔ اگر آپ کہیں گے کہ یار ساری زندگی کمانے میں نکل گئی، کبھی اتنا بجٹ ہی نہیں بنا کہ ایسا کچھ کر سکیں، بس تھوڑی سی جمع پونجی ہے، تو آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ اکثر لوگ یہی کہتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ لیکن اصل میں ایسا نہیں ہے۔ پیسے بچانے کی بجائے انہیں خرچ کرنا بڑے حوصلے والا کام ہے۔ آپ غور کریں تو آپ کو یاد آ جائے گا کہ بچت آپ کی ترجیح تھی یا کسی کے واسطے خرچ کرنا آپ کے لیے آسان تھا۔ وہیں سے آپ کو یہ بھی سمجھ آ جائے گی کہ آپ کے خزانے میں لمحے زیادہ ہیں یا پیسے؟
اگر آپ کے پاس رقم نہیں تو آپ مفلس ہیں لیکن اگر یادوں میں خوشی کا لمحہ کوئی نہیں، اعتبار کے قابل دوست کوئی نہیں، دکھ سکھ میں ساتھ کھڑا رشتے دار کوئی نہیں تو پھر مجھے شک ہے کہ آپ وفات پا چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یقین کیجیے کہ ہمدردی رکھنا، دوسروں پہ رحم کرنا، درگزر کرنا، یہ سب اعلی اخلاقی رویے اس وقت تک دو نمبر ہیں جب تک آپ جیب بھی ساتھ میں ڈھیلی نہیں کرتے۔ کسی کی عیادت کو جاتے ہوئے دو کلو آم لے جانے سے نہ اس کا فریج بھرتا ہے نہ آپ کا لیکن کیا ہے کہ ساری زندگی اس بندے کو یاد رہتا ہے کہ آپ جب پوچھنے آئے تھے تو خالی ہاتھ نہیں تھے۔ بس اتنی سی بات ہے۔
یہ ساری گیم بھی ایک طرف رکھ دیں۔ اس سے بھی اہم خود اپنے آپ پہ خرچ کرنا ہے۔ آپ کو وہ گتے کی عینکیں یاد ہوں گی جو عید پہ آپ غبارے والے سے خریدتے تھے، کوئی ٹوپی جو آپ نے بڑی ضد کر کے لی ہو گی، شاید کبھی ذوق و شوق سے واک مین لیا ہو یا کچھ بھی۔ تو اگر آپ افورڈ کر سکتے ہیں تو اپنی خواہشیں پوری کرنا اب بھی آپ کا حق ہے۔
ایک اعلی برینڈڈ عینک آٹھ دس سال نکال جاتی ہے، اوقات کے مطابق ایک قیمتی گھڑی بلاشبہ مرد کا زیور ہے، لیوائز کی جینز ساری زندگی ساتھ دیتی ہے، بوسکی کا کرتہ آہا، سبحان اللہ، بندہ خود کو راج کمار لگتا ہے۔ کوئی اچھی جیکٹ، اچھا لیدر کا جوتا، یہ سب آپ کا حق ہے۔ شکل خدا کی عطا ہے لیکن کما کمو کے بھی گھسیارا دکھائی دینا خاص آپ کی ذاتی صلاحیت ہے۔
جب آپ یہ سب عیاشی کرتے ہیں تو زندگی کے بارے میں آپ کا نظریہ خودبخود بدلتا بھی ہے۔ آپ کو سمجھ آنے لگتی ہے کہ چیزیں اور روپے کس طرح یادوں میں بدلتے ہیں۔ کیسے خود پہ یا دوسروں پر خرچہ کرنا اینڈ آف دی ڈے خوشی میں بدلتا ہے اور کیسے وہ خوشی فارغ وقت میں ایک اچھی یاد بن کر دستک دیتی ہے۔
زندگی ادھار نہیں ملتی، پیسہ ادھار مل سکتا ہے۔ وقت واپس نہیں ملتا، پیسہ واپس مل سکتا ہے۔ لمحہ رکتا نہیں ہے پیسہ تو روکا جا سکتا ہے۔ خوشی دستک دیتی ہے، دروازہ کھلے دل سے کھولنا قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے۔
گئے نگاہ دے تیر، دلاں نوں چیر، وگاواں نیر، تیری تصویر، میری جاگیر ہے! سمجھ کر لو متے کے نال تکے لیکن!