اپنے حق کے لیے بولنے والی عورت کو ’چڑیل‘ کہا جاتا ہے: ثروت گیلانی

ثروت گیلانی کے مطابق بھارتی سٹریمنگ ایپ ذی فائیو پر نشر ہونے والی پہلی پاکستانی ویب سیریز ’چڑیلز‘ ایسی عورتوں کی کہانی ہے جو ہم ہر وقت اپنے اردگرد دیکھتے رہتے ہیں۔

ثروت گیلانی کو ایک شکایت رہی ہے کہ پاکستان میں انہیں وہ پذیرائی نہیں ملی جو انہیں ملنی چاہیے تھی (ویڈیو سکرین گریب)

ثروت گیلانی کے کریڈٹ پر درجنوں کامیاب ڈرامے اور دو انتہائی کامیاب فلمیں ہیں، لیکن اس وقت ان کی دھوم اس لیے مچی ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے بھارتی ذی فائیو ایپ پر آنے والی پہلی پاکستانی ویب سیریز ’چڑیلز‘ میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے ثروت گیلانی سے ملاقات کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس ویب سیریز کا نام ’چڑیلز‘ کیوں رکھا گیا ہے۔

ثروت گیلانی نے بتایا کہ ذی فائیو ایپ پر 11 اگست سے نشر ہونے پہلی پاکستانی ویب سیریز ’چڑیلز‘ ایسی عورتوں کی کہانی ہے جو ہم پاکستان میں ہر وقت اپنے آس پاس دیکھتے ہیں۔

بقول ثروت: ’اس میں ہم نے ان مسائل کو اجاگر کیا ہے جو معاشرے کے ہر طبقے میں پائے جاتے ہیں۔ چاہے وہ امیر طبقہ ہو، متوسط طبقہ، یا غریب طبقہ۔ اس ویب سیریز میں ان تمام مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ ان پر بات کی جاسکے‘۔

اپنے کردار کے حوالے سے ثروت نے بتایا کہ وہ ایک وکیل کا کردار ادا کررہی ہیں، جس کا نام سارہ ہے اور جو ایک بہترین بیوی اور بہترین ماں ہے، لیکن پھر وہ اپنے شوہر کے دیگر معاشقوں سے باخبر ہوجاتی ہے اور اس کے بعد وہ ایک حکمتِ عملی تشکیل دیتی ہے کہ اس معاشرے سے اس عمل کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، اور اس ضمن میں ایک ٹیم بنائی جاتی ہے جس کا نام ’چڑیلز‘ پڑتا ہے۔

ثروت کے مطابق: ’جو بھی عورت اس معاشرے میں اپنے لیے یا اپنی کسی ساتھی کے لیے آواز اٹھاتی ہے یا کوئی اور بات کرتی ہے تو اسے چڑیل قرار دے دیا جاتا ہے، تو ہم وہ چڑیل ہیں جو اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں‘۔

ثروت گیلانی نے واضح کیا کہ ’چڑیلز‘ چار خواتین کی کہانی پر مشتمل ’سیکس اینڈ دا سٹی‘ یا ایمازون پرائم کی ’فور مور شاٹس‘ کا پاکستانی ورژن نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا:’ یہ حقیقت سے بہت زیادہ قریب ہے جبکہ مذکورہ دونوں شوز گلیمر سے بھرے ہوئے تھے۔ اس میں ہلکا سا گلیمر ہے مگر خواتین کے اصل مسائل پر بات کی گئی ہے، اس میں معاشرے کے تاریک پہلو بھی دکھائی دیں گے۔‘

اپنے کردار کے بارے میں ثروت نے بتایا کہ جب انہیں ہدایت کار عاصم عباسی نے سارہ کا کردار دیا تو انہیں محسوس ہوا کہ یہ کردار ان کی اپنی شخصیت سے مماثلت رکھتا ہے۔ ’سارہ عورتوں کے حقوق کی بات کرتی ہے، میں بھی کرتی ہوں، سارہ بچوں کے استحصال کے خلاف بات کرتی ہے اور میں بھی کرتی ہوں، اس لیے سارہ کی بہت سی خوبیاں میں خود بھی سمجھ سکتی ہوں، اس لیے یہ کردار ادا کرنا کافی آسان لگا‘۔

ذی فائیو سٹریمنگ ایپ پر پہلی پاکستانی ویب سیریز کے حوالے سے ثروت گیلانی کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی زبردست موقع ہے، کیونکہ پاکستان میں کوئی اور پلیٹ فارم نہیں ہے۔

ثروت نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ جب پاکستان میں لوگ یہ سیریز دیکھیں گے تو انہیں خیال آئے گا  کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ایک پلیٹ فارم ہونا چاہیے، اس لیے اس میں فائدہ سب کا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ثروت نے بتایا کہ اس ویب سیریز کی تشہیر کے دوران انہوں نے کئی بھارتی چینلز اور اخبارات کو انٹرویوز دیے ہیں اور بھارتی ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات چیت کا ان کا تجربہ بہت اچھا رہا۔

’بھارتی صحافی بہت زیادہ پروفیشنل ہیں اور بہت نرم خو ہیں‘۔

ثروت کا کہنا تھا  کہ پاکستان میں کبھی کبھار میڈیا فنکار پر حاوی ہوجاتا ہے لیکن بھارت میں فنکار کا زیادہ خیال کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ خود ایک کہانی بنانے میں دلچسپی رکھتی ہیں جس کے لیے وہ سات سال سے کوشش کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ  ’یہ پانچ بچوں اور ایک پرانے نیلے موزے کی کہانی ہے، لیکن ابھی پاکستانی صنعت جہاں ہے، وہاں ایسی کہانیاں اپنی جگہ نہیں بنا سکتیں۔ تاہم اب جیسے جیسے نئے راستے کھل رہے ہیں تو ایک دن میں بھی یہ کہانی بنا ہی لوں گی۔‘

ثروت گیلانی کو ایک شکایت رہی ہے کہ پاکستان میں انہیں وہ پذیرائی نہیں ملی جو انہیں ملنی چاہیے تھی، جبکہ ان کے کریڈٹ پر درجنوں کامیاب ڈرامے اور دو کامیاب ترین فلمیں ہیں۔

اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بقول عاطف اسلم کے پاکستان میں فنکار کو اس کے مرنے کے بعد ہی پزیرائی ملتی ہے، چاہے اداکار ہو یا گلوکار۔ ثروت گیلانی نے مزید کہا: ’میں خود 18 سال سےکام کر رہی ہوں اور آج تک مجھے کوئی ایوارڈ نہیں ملا، کیوں نہیں ملا؟ دل تو دکھتا ہے، ایک فنکار سراہے جانے کے لیے کام کرتا ہے اور جب اسے وہ ستائش نہیں ملتی تو افسوس ضرور ہوتا ہے مگر جو مضبوط انسان ہوتے ہیں وہ اسی جذبے سے دوبارہ کام کرنے لگتے ہیں۔‘

’ہمارے معاشرے میں دوہرا معیار ہے‘

اس سال کے آغاز میں ثروت گیلانی کی ایک تصویر اپنے شوہر کے ساتھ منظرعام پر آئی تھی جس کی وجہ سے انہیں سوشل میڈیا پر بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس بارے میں ثروت گیلانی نے کہا کہ وہ اس وقت اپنے ہنی مون پر تھیں، کیونکہ اس سے پہلے انہیں وقت نہیں ملا تھا۔

ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا کہ جس زمانے میں ان کی یہ تصویر سامنے آئی تھی، اسی وقت ایک نجی چینل پر ایک مقبول ڈرامہ چل رہا تھا جس میں ایک شادی شدہ خاتون کو  اپنے باس سے محبت میں مبتلا دکھایا گیا تھا اور اس پر بہت داد و تحسین دی جارہی تھی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں دوہرا معیار ہے۔

ثروت نے مزید کہا کہ ’ایک شوہر اپنی بیوی کو تھپڑ مار رہا ہو تو کہیں گے کہ اپنی بیوی کو ٹھیک رکھا ہوا ہے، بھرم ہیں اس کے ، لیکن اگر ایک شوہر اپنی بیوی کو پیار کر رہا ہو تو اس پر گالیاں دیں گے کہ یہ کیا کر رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’صرف اس لیے کہ ہم فنکار ہیں تو کسی کو یہ حق نہیں مل جاتا کہ وہ کچھ بھی کہہ دے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے بھی کچھ ذمےداریاں عائد ہوتی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر بحیثیت ایک فنکار ہماری کچھ ذمےداریاں ہیں تو دیکھنے اور کہنے والے کی بھی ذمےداری بنتی ہے۔‘

ثروت گیلانی نے مزید کہا کہ ’جب تک پاکستان میں تعلیم کا معیار نہیں بڑھے گا، یہ معاملہ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ یہ سارا مسئلہ ناخواندگی کا ہے، جب کسی کو تعلیم نہیں ملتی تو اس کا دماغ ایک ماچس کی ڈبیا میں قید ہوتا ہے، اس لیے اس سے باہر نکل کر صرف دوسروں پر رائے زنی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں تو ذہنی صحت پر بھی بات نہیں کی جاسکتی، ان افراد کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو بہترین اور دوسروں کو برا سمجھتے ہیں۔‘

آخر میں انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں فنکار کو اپنے لیے خود آواز اٹھانے کی بہت ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن