ہمارے خطے میں پچھلے ماہ ایک بڑی تبدیلی آئی جب ایرانی وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ وہ چین کے ساتھ ایک طویل مدتی حکمت عملی کی بنیاد پر شراکت داری کے معاہدے میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس کے چند دنوں بعد ہی ایران نے اعلان کیا تھا کہ وہ بھارت کو ریلوے کے ایک اہم منصوبے سے خارج کر رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں اس علاقے پر نظر رکھنے والوں کے لیے انتہائی حیران کن ہیں کیونکہ یہ اس علاقے میں نئی اور غیرمتوقع صف بندی کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔
چین اور ایران کے معاہدے کی تفصیلات ابھی طے کی جا رہی ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اہم ایرانی شعبوں میں خطیر 400 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے گی جن میں بینکنگ، مواصلات اور ترقیاتی کام بشمول ریلوے، ائیر پورٹس اور فری ٹریڈ زونز شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں میں دفاعی تعاون اور حساس معلومات کا تبادلہ بھی شامل ہوگا۔ اس کے بدلے ایران، چین کو بلاتعطل تقریبا 25 سال کے لیے تیل کی فراہمی انتہائی رعایتی نرخوں پر یقینی بنائے گا۔
تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن سکتے ہیں
یہ بڑی علاقائی تبدیلی کیسے ممکن ہوئی اور کیسے یہ دونوں ملک اس قدر قریب آ گئے؟
امریکی پابندیوں نے ایران کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کرونا (کورونا) بحران نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ حال ہی میں ایرانی نیوکلیائی اور بحری تنصیبات پر امریکی سائبر حملوں نے ایران کی سلامتی کے لیے بھی سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ایران کے پاس دنیا کے تیل کے 15 فیصد ذخائر موجود ہیں اور وہ قدرتی گیس پیدا کرنے والے دنیا کے پانچ بڑے ملکوں میں شامل ہے۔
لیکن امریکی پابندیوں کی وجہ سے ان بیش بہا قدرتی ذخائر کے کم ہی خریدار نظر آتے ہیں ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے سے پچھلے سال اکتوبر سے ایرانی معیشت میں تقریبا 8.5 فیصد کمی آئی ہے۔ 2018 میں ایران روزانہ 40 لاکھ بیرل تیل برآمد کر رہا تھا جو اس وقت گر کر 20 لاکھ بیرل ہو گیا ہے۔ یہ حالات کرونا سے پہلے پیدا ہو چکے تھے اور اس کے بعد تیل کی عالمی طلب میں مزید کمی کی وجہ سے اور خرابی پیدا ہوئی ہے۔
معاشی تنزلی اور امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران اندرونی سیاسی خلفشار کا بھی شکار ہے۔ پچھلے سال ایران میں معاشی مشکلات کی وجہ سے سیاسی بےچینی کی ایک بڑی لہر آئی جسے سخت طاقت کے ذریعے کچل تو دیا گیا مگر اس نے ایرانی سیاسی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔
ایران کی علاقے میں اور خصوصا ہمسایہ ممالک عراق، یمن، شام اور لبنان میں سیاسی مہم جوئی اور فوجی امداد نے بھی بیمار ایرانی معیشت پر سخت بوجھ ڈالا ہوا ہے۔ جنرل سلیمانی کا قتل بھی ایران کی سلامتی کو درپیش خطرات کی طرف ایک واضح اشارہ تھا۔
ایران نے علاقائی اور مختلف سیاسی اور معاشی وجوہات کی بنا پر بھارت سے کافی مضبوط سیاسی اور معاشی تعلقات قائم کر لیے تھے۔ بھارت نے چابہار بندرگاہ پر کافی بڑی سرمایہ کاری کی مگر امریکی دباؤ کے نیچے آ کر بھارت نے حال ہی میں اس مواصلاتی منصوبے میں مزید سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔
اس لیے ان بڑھتے ہوئے بقائی خطرات اور طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران کو ایک طویل مدتی، قابل اعتماد معاشی، سیاسی اور عسکری مدد کی ضرورت تھی جو چین اور ایران کو اس قدر قریب لے آئی کہ چین اب ایران میں اپنی سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔
چین نے ایران کو گلے لگانے کا فیصلہ کافی سوچ بچار کے بعد کیا ہے۔ اس کی بہت ساری عالمی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں مگر ان میں علاقائی مسائل کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ چین اپنی معاشی بالادستی قائم کرنے کے لیے ایک بڑے مواصلاتی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ پر کام کر رہا ہے اور اس میں حائل مشکلات کو ختم کرنے کے لیے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہے۔ جنوبی ایشیا میں اس منصوبے میں پاکستان کا ایک بہت بڑا کردار ہے۔ سی پیک معاہدے کے مطابق اس سلسلے میں گوادر بندرگاہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک وسیع سڑکوں کا جال بچھایا گیا ہے۔ ساتھ میں توانائی کے شعبے میں بھی کثیر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
پاکستان سے بہترین سیاسی اور معاشی تعلقات کے باوجود چین کو پاکستان سے سی پیک معاہدہ کی ابتدا سے ہی کچھ خدشات رہے ہیں۔ پاکستان میں مختلف سیاسی قوتوں اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ میں سی پیک کے بارے میں کافی اختلافات رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے 2018 میں اقتدار سنبھالتے ہی سی پیک کے بارے میں شکوک کھڑے کئے اور براہ راست تو نہیں مگر بالواسطہ اس کی شفافیت پر سوال اٹھائے اور بہت ساری چینی کمپنیوں پر مالی بدعنوانیوں کے الزامات بھی لگائے گئے۔ اس منصوبے کی ابتدا سے ہی موجودہ حکمران سیاسی جماعت کے دھرنوں نے 2014 میں رکاوٹ ڈالی۔ پچھلی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی سی پیک کی قیادت اور فیصلہ سازی کرنے میں اختلافات واضح طور پر نظر آئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاید پاکستان میں موجود اس سیاسی الجھاؤ اور پاکستانی قیادت میں سی پیک کے بارے میں بظاہر تذبذب نے چینی قیادت کو گوادر کے متبادل کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور کر دیا جس کی وجہ سے ہم اب بڑھتے ہوئے ایرانی اور چینی معاشی تعلقات دیکھ رہے ہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ ان تعلقات کی وجہ سے چین کی سی پیک پر توجہ کم ہو جائے گی مگر اس سے چین نے اپنی کسی بھی علاقائی کمزوری کا راستہ بند کر دیا ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ چین کو ایران میں بہتر انسانی ذرائع مل سکیں گے اور زیادہ منظم اہلکاروں اور نظام حکومت سے معاملات طے کرنا ہوں گے۔
اس غیرمتوقع علاقائی صف بندی میں ہمارے مختلف سیاسی قوت کے مراکز کے لیے اہم اسباق ہیں کہ کچھ معاملات پر بےجا سیاست سے گریز کرنا چاہیے اور ادارہ جاتی رقابت کو ان اہم قومی مسائل میں ایک طرف رکھنے کی ضرورت ہے۔
یقیناً چینی قیادت کے ایران کے بارے میں فیصلہ صرف پاکستان کا متبادل نہیں ڈھونڈنا تھا۔ اس فیصلے کی اور بھی بین الاقوامی وجوہات تھیں جن میں سرفہرست شاید بھارت کا ’دگنا محاصرہ‘ کرنا تھا۔ اور چین کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضرورت کے لیے ایک طویل المدتی سستا انتظام اور امریکہ پر ایشیا میں اپنی برتری کا واضح پیغام دینا بھی مقصود تھا۔
اس میں یہ پیغام بھی صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اگر کسی ملک کو امریکی پابندیوں کا سامنا ہے تو اس کا مطلب ان کے سیاسی مستقبل کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ وہ چین کی طرف اپنی سلامتی اور معاشی ترقی کے لیے دیکھ سکتے ہیں۔
چینی اور ایرانی بغل گیری امریکہ کے لیے اس علاقے میں سنجیدہ دفاعی مسائل پیدا کر سکتی ہے اور ممکن ہے کہ اگلی امریکی حکومت ان خطرات کا ادراک کرتے ہوئے ایران کے ساتھ مختلف طریقے سے معاملات طے کرنے پر غور کرے اور اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لائے۔