بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر راحت اندوری کرونا (کورونا) وائرس کا شکار ہو کر چلے بسے۔ ان کی شاعری کی سب سے بڑی خاصیت عوام سے جڑ کر رہنا تھا۔
ایک قسم کے شاعر وہ ہوتے ہیں جن کی کوشش ہوتی ہے کہ شعر کسی کی سمجھ میں مشکل سے آئے اور لوگ چراغ لے کر اس میں معنی ڈھونڈتے رہیں۔ کئی بڑی محنت کر کے اپنی شاعری کو حالاتِ حاضرہ سے کوسوں پرے رکھتے ہیں تاکہ کسی کو یہ گمان نہ گزرے کہ شاعر پر موجودہ سیاسی، سماجی یا معاشرتی صورتِ حال کا کوئی اثر پڑ رہا ہے۔
دوسری قسم کے شاعر وہ ہوتے ہیں جنہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ پانچ سو سال بعد کا ادب انہیں کس طرح یاد رکھے گا۔ وہ لمحۂ موجود میں جیتے ہیں اور اپنی شاعری کے موضوعات آس پاس کے واقعات سے اٹھاتے ہیں۔
راحت اندوری دوسرے قبیلے سے تعلق رکھنے والے شاعر تھے۔ حالات حاضرہ پہ کہنا ہو یا مزاحیہ شاعری کے ذریعے لوگوں کو محظوظ کرنا ہو، ان کے الفاظ پر پورا مجمع ایک دم واہ واہ کی صداؤں سے گونج اٹھتا تھا۔
ان کا کہنا تھا، ’آج کل دو ٹکے کے لوگ بھی خود کو بڑا شاعر بنا کے پیش کرتے ہیں لیکن میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں بڑا شاعر ہوں، کوشش ہے کہ زندگی میں کوئی ایک شعر اچھا کہہ لوں۔‘ یہ بات وہ ہر مشاعرے میں دہراتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی بات راحت اندوری کی بھی تھی۔ بے شک اندوری صاحب نے بھی کروڑوں لوگوں کے دل جیتے ہیں۔ ویسے تو ان کے سینکڑوں شعر ایسے ہیں جو لوگوں کے دلوں اور زبانوں پر زندہ ہیں، میری نظر میں راحت اندوری کے مندرجہ ذیل پانچ اشعار کا نقش آسانی سے نہیں مٹے گا۔
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟
پلوامہ حملے کے بعد اور بالخصوص پارلیمانی انتخابات برائے 2019 کے دوران یہ شعر بہت ہٹ رہا گو کہ راحت اندوری نے یہ شعر اس سے بہت پہلے کہا تھا۔ بدقسمتی سے ہندوستان و پاکستان دونوں کی اندرونی سیاست ایکدوسرے کے خلاف زہر اگلنے پر مبنی ہے۔ مذہبی اقلیتیں دونوں ممالک میں محفوظ نہیں لیکن مزے کی بات ہے کہ دونوں اپنے ملکوں میں انہیں حقوق و تحفظ دینے کے بجائے ان کے استحصال پر ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں۔ چناؤ کے دوران ایک دوسرے کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ راحت اندوری کا یہ شعر بہت دیر تک ہندوستان و پاکستان کی سیاسی منظر کشی پیش کرتا رہے گا-
دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا
شعر کے لفظ سادہ ہیں لیکن مطلب رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ یہ شعر سامراجیت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ کس طرح سے سامراجی نظام مزدوروں و محنت کشوں کا لہو پیتا ہے یہ اس کی بھر پور ترجمانی کر رہا ہے۔ یہ شعر پڑھنے کے بعد میرا ذہن ہمیشہ پریم چند کے شہرہ آفاق ناول گئودان پر چلا جاتا ہے۔
اس ناول کے مرکزی کردار ہوری کی تمنا ہوتی ہے کہ اس کے گھر میں ایک گائے آئے لیکن عمر بھر شب وروز کی مشقت کے باوجود اس کی یہ تمنا پوری نہیں ہوتی۔ وہ مزدور جس سے خوب کام لیا جاتا ہے اور اس کی محنت کا سر پلس سیدھا زمیندار و سرمایہ دار کی جیب میں جاتا ہے - کرائے کے گھر یا جونپڑی میں رہ کر مشقت کرنے والا مزدور جس کو زندگی بھر اپنا گھر بھی میسر نہیں آتا، مرنے کے بعد دو گز کا مستقل مالک بن جاتا ہے۔ اب مرنے کے بعد اس مکان سے کوئی اسے بےدخل نہیں کر سکتا۔
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
ویسے یہ پوری غزل ہی کمال کی ہے اور اس کا ایک ایک شعر اپنے اندر ایک معنویت رکھتا ہے لیکن یہ شعر اپنی مثال آپ ہے۔ 73 سالہ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور دلتوں کی کھلے عام تضحیک کے اوپر اس شعر سے بڑا جواب ہو نہیں سکتا۔
اس شعر کو ایک طرح سے آئین ہند کے دیباچے کا شعری روپ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
اس شعر کا پہلا حصہ تو ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی پر مرثیہ ہے جبکہ دوسرے حصے میں مسلمانوں کی عظیم تاریخ پر قصیدہ خوانی کی ہے۔
سب کی پگڑی کو ہواؤں میں اچھالا جائے
سوچتا ہوں کوئی اخبار نکالا جائے
موجودہ دور کے میڈیا پر کارپوریٹ مافیا کا کنٹرول اور میڈیا سنسر شپ پر یہ شعر سو فی صد صادق آتا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر بھی آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح مخصوص لوگوں کو بلا کر دوسروں پر بے بنیاد الزام لگائے جاتے ہیں اور پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ میڈیا جس کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کرتا نظر آتا ہے -
ڈاکٹر راحت اندوری یکم جنوری 1950 کو پیدا ہوئے اور عالمی شہرت یافتہ اردو شاعر تھے۔ آپ سات کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ 40 سے 45 سالوں تک اردو مشاعروں کی دنیا پر راج کرنے والا اندوری کل دنیا کو الوداع کہہ گیا۔
(کالم نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں ریسرچ سکالر ہیں)