بھارتی سپریم کورٹ نے چیف جسٹس اور عدالت عضمیٰ کے بارے میں ’توہین آمیز‘ ٹویٹس کرنے والے وکیل پر فرد جرم عائد کر دی ہے۔
ایڈوکیٹ پراشانت بھوشن کو عدلیہ اور چیف جسٹس کے خلاف دو ٹویٹس کرنے کا مرتکب قرار دیا گیا۔ جسٹس ارون مشرا، جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کرشنا مراری پر مشتمل تین رکنی بینچ نے متفقہ طور پر پراشانت بھوشن کے خلاف کریمنل کنٹمپٹ کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ دیا ہے۔
بینچ نے سزا کا تعین کرنے کے لیے 20 اگست کی تاریخ مقرر کی ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق عدالت کا کہنا تھا کہ یہ ٹویٹس بھارت کی آئینی جمہوریت کی بنیادوں کو ہلانے کی ایک کوشش تھیں جس کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ضروری ہے۔
'اگر ایسے حملوں کا مضبوط جواب نہ دیا گیا تو یہ ملکی وقار کو بین الااقوامی سطح پر قوم کی بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں۔‘
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ 'نڈر اور غیر جانب دار ججوں کی عدالتیں ایک صحت مند جمہوریت کی پہچان ہیں اور بدنیتی پر مبنی حملوں سے ان پر اعتماد کم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
عدالت کے مطابق پراشانت کی ٹویٹس مسخ شدہ حقائق پر مبنی تھیں اور یہ کریمنل کنٹمپٹ یعنیٰ توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہیں۔ پراشانت کے خلاف کارروائی کا آغاز 22 جولائی کو ازخود نوٹس کی صورت میں کیا گیا تھا۔
آن لائن بھارتی اخبار دی لیفلیٹ کے مطابق پراشانت کا اپنے دفاع میں کہنا تھا کہ ان کی ٹویٹس کو آزادی اظہار کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ انہوں نے کئی ملکی اور بین الااقوامی عدالتی فیصلوں میں سپریم کورٹ ججوں کی جانب سے آزادی اظہار اور جمہوریت کے بارے میں لکھے جانے حصوں کو پیش کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ کوئی بات کتنی بھی تلخ، قابل اعتراض یا اتفاق کے قابل نہ ہو اسے توہین عدالت نہیں قرار دیا جا سکتا۔ یہ جمہوریت کی اساس ہے کہ تمام ادارے بشمول عدلیہ عوام کے لیے کام کریں اور عوام کو ان تمام اداروں کے افعال کے بارے میں مناسب اور آزادی سے بات کرنے کی اجازت ہے تاکہ اداروں کو بہتر کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جن ٹویٹس کے بعد پراشانت کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کی گئی تھی ان میں سے ایک میں انہوں نے چیف جسٹس کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’چیف جسٹس 50 لاکھ کی موٹر سائیکل پر گھومتے ہیں جس کے مالک بی جے پی کے رہنما راج بھون ناگپور ہیں۔ وہ ماسک یا ہیلمٹ نہیں پہنتے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں جب انہوں نے سپریم کورٹ میں لاک ڈاؤن کر رکھا ہے اور لوگوں کو ان کا بنیادی حق یعنیٰ انصاف نہیں دے رہے۔'
ایک اور ٹویٹ میں سپریم کورٹ کے حوالے سے لکھا کہ 'جب مستقبل میں تاریخ دان گذشتہ چھ سال کے دوران بھارت میں جمہوریت کو بغیر کسی نافذ کردہ ایمرجنسی کے تباہ ہونے کے حوالے سے غور کریں گے تو وہ اس تباہی میں سپریم کورٹ کے کردار خاص طور پر آخری چار چیف جسٹسز کو شامل پائیں گے۔'
ایڈوکیٹ ان ریکارڈ سنیل فرنینڈس کا کہنا ہے کہ 'پراشانت ہمیشہ سے سٹیبلشمنٹ کے سخت ناقد رہے ہیں۔ ان کی اس حوالے سے تلخ اور کڑی ٹویٹس بہت معروف ہیں لیکن انہیں توہین عدالت کا مرتکب قرار دینا سپریم کورٹ کے وقار میں اضافہ نہیں کرتا۔'
فرنینڈس کا مزید کہنا ہے کہ 'ہم ججوں سے صبر اور اپنے خلاف تنقید برداشت کرنے کی زیادہ توقع کرتے ہیں۔اس ملک میں سپریم کورٹ ہی شخصی آزادیوں اور آزادی اظہار کی سب سے بڑی مدافع ہے۔'