لبنان کے صدر مشیل اون کا کہنا ہے کہ تباہ کن بیروت دھماکے کی تحقیقات 'بہت پیچیدہ' ہیں اور یہ جلد مکمل نہیں ہو سکتیں۔
ہفتے کو فرانسیسی ٹی وی کو دیے جانے والے انٹرویو میں اپنے استعفے کے مطالبے پر بات کرتے ہوئے لبنانی صدر کا کہنا تھا کہ ایسا ہونا 'ناممکن' ہے کیونکہ یہ طاقت کا ایک خلا پیدا کر دے گا۔
چار اگست کو بیروت میں ہونے والے دھماکے کے بعد یہ ان کا غیر ملکی میڈیا کو دیا جانے والا پہلا انٹرویو تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بیروت کے پورٹ پر رکھے گئے تقریبا تین ہزار ٹن امونیم نائٹریٹ کی موجودگی کی وجہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکی تاہم ایسی دستاویزات سامنے آئی ہیں، جن کے مطابق لبنان کے صدر سمیت سکیورٹی حکام اس کیمیکل کی وہاں موجودگی سے واقف تھے۔
بیروت دھماکے میں اب تک 180 افراد کی ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 6000 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ دھماکے کے بعد 30 افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔
لبنانی صدر کے مطابق یہ تحقیق تین حصوں پر مبنی ہے۔ جن میں پہلے حصے میں اس کارگو کی وہاں موجودگی کی وجوہات، دوسرے میں اسے کہاں سے اور کس کے ذریعے لایا گیا اور تیسرے میں اس کی حفاظت کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، کا تعین کیا جائے گا۔
مشیل عون کا کہنا تھا کہ 'ہم جلد سے جلد نتیجے پر پہنچنا چاہتے ہیں لیکن یہ معاملہ بہت پیچیدہ ہے اور اس میں وقت لگے گا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ان سے پوچھا گیا کہ جولائی میں اس دھماکہ خیز مواد کی موجودگی کا علم ہونے کے بعد انہوں نے کیا اقدامات لیے تو ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں انہیں بہت تاخیر سے پتہ چلا اور ان کے فوجی مشیر نے انہیں یقین دہانی کروائی تھی کہ ذمہ دار افراد اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔
مشیل عون کا کہنا تھا کہ 'وہ تمام لوگ اس بات سے آگاہ تھے۔' ان کی جانب سے مزید کہا گیا کہ اس علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے متعلقہ افراد کے ضروری اقدامات کو یقینی بنایا گیا تھا۔
لبنانی صدر نے امریکی ادارے ایف بی آئی کی جانب سے اس دھماکے کی تحقیق کرنے کے حوالے سے کہا کہ 'وہ ہم سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں اور تفصیلات تلاش کریں گے کہ بحری جہاز یہاں کیوں لایا گیا، اس کا ذریعہ کیا تھا اور اس کا مالک کون ہے۔'
مشیل عوان، جنہیں طاقتور ملیشیا حزب اللہ کی حمایت بھی حاصل ہے، کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس مقام پر فضائی حملے کے امکانات جانچنے کے لیے سیٹلائٹ تصاویر طلب کی ہیں۔ ان کی جانب سے غیر ملکی میزائل حملے کے امکان کو رد نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے اس دھماکے میں اپنی تنظیم کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی بین الااقوامی تحقیق اس معاملے میں اسرائیل کے ملوث ہونے پر اس کے کردار کی نشاندہی نہیں کرے گی۔
ابھی تک اسرائیل کی جانب سے اس دھماکے میں ملوث ہونے کی تردید کی جاتی رہی ہے جبکہ شواہد بھی اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
کئی لبنانی چاہتے ہیں کہ اس دھماکے کی تحقیق ان کی حکومت نہ کرے کیونکہ سیاسی طور پر متحارب گروہ، جو کہ بدعنوانی کے لیے بدنام ہیں، ایسے کسی بھی نتیجے کو منظر عام پر نہیں آنے دیں گے جو ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
عوامی دباؤ کے بعد لبنانی وزیراعظم کی حکومت بھی 10 اگست کو مستعفی ہو چکی ہے اور وزیر اعظم حسن دیاب کی جگہ لینے کے لیے ابھی تک کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی باضابطہ مشاورت کی جا رہی ہے۔
مشیل عون سے جب عوامی غم و غصے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا 'مجھے عوام کا والد کہا جاتا ہے۔ میں انہی میں سے ایک ہوں۔'
مشیل عون 2016 میں لبنان کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس سے قبل سیاسی تعطل کے باعث لبنان میں دو سال تک عہدہ صدارت خالی رہا تھا۔
(ایسوسی ایٹڈ پریس)