یادش بخیر: آج 17 اگست ہے۔ 32برس پہلے آج ہی کے دن بہاولپور کے قریب بستی لال کمال میں ایک ایسا سانحہ رونما ہوا تھا جس کی ہولناک گونج پوری دنیا میں سنی گئی۔
صدر پاکستان جنرل محمد ضیا الحق اور ان کے رفقا کی طیارے کے اندوہناک حادثے میں ناگہانی موت نے ملک بھر میں صف ماتم بچھا دی تھی۔ جب یہ حادثہ وقوع پذیر ہوا تھا، اس وقت ہماری عمر محض چار سال چھ دن کی تھی اور اوچ شریف میں موجودہ رہائش گاہ پر رہائش پذیر ہوئے ہمیں چار مہینے ہی ہوئے تھے۔ اس قومی سانحے سے چند روز قبل ہی ابا جی ایک بڑا سا ڈبہ نما بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی لے کر آئے تھے، جسے پوری شمس کالونی میں واحد ٹیلی ویژن سیٹ ہونے کا ’اعزاز‘ حاصل تھا۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ پی ٹی وی پر اس حادثے کی براہ راست کوریج کی گئی تھی اور خصوصی نشریات پیش کی گئیں تھیں۔ جائے حادثہ پر امدادی کارروائیوں کے دوران جب متوفیوں کی ناقابل شناخت نعشوں کے ٹکڑے اکٹھے کیے جا رہے تھے تو سابق صدر مملکت کی نعش کی شناخت قرآن پاک کے ایک چھوٹے سے نسخے کے ذریعے سے کی گئی تھی جو ہمہ وقت وہ اپنی جیب میں رکھتے تھے۔
چار سال چھ دن کے بچے کے سلیٹ کی مانند صاف ذہن میں یہ منظر نقش ہو کر رہ گیا کہ ٹی وی پر حادثے کی خبریں اور مناظر دیکھنے کے لیے محلے کی بڑی بوڑھی خواتین کا ہمارے گھر تانتا بندھ گیا تھا۔ اماں نے بہنوں کی مدد سے دیو ہیکل ٹیلی ویژن کو بڑے کمرے میں رکھوا کر فرش پر چٹائیاں بچھا دی تھیں۔ خواتین آتی جاتیں اور گلے لگ کر روتی جاتیں۔ اماں کی تو سسکیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ عجیب سوگوار سا ماحول تھا۔
اس دن ہمارے گھر میں چولہا نہیں جلا تھا۔ ابو سابق فوجی تھے اور چار بھائی حاضر سروس فوجی، سو جنرل محمد ضیا الحق کو بطور فوجی حکمران ہمارے گھر میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ابا ان کی حکومتی و سیاسی پالیسیوں کے طرف دار تھے تو ہم ان کی خمار زدہ بولتی آنکھوں کے دیوانے تھے۔ ان کی بڑی سی تصویر ابا جی کے دفتر میں آویزاں تھی۔ ان کا تذکرہ ’ضیا صاحب‘ کے نام سے کیا جاتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین، افغان جنگ کے اساطیری کردار جنرل اختر عبدالرحمان اور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر و ممتاز ادیب، ناول نگار اور افسانہ نویس صدیق سالک بھی تھے جن کی تحریریں گھر میں شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ افواج پاکستان کا ترجمان جریدہ ’ہلال‘ باقاعدگی سے گھر آتا تھا، ان کی شہرہ آفاق کتاب ’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘ ابا اور بھائی جان کی پسندیدہ کتابوں میں سے ایک تھی جو اب ’ترکے‘ میں ہمیں منتقل ہو گئی ہے۔
32 برس پلک جھپکنے میں گزر گئے۔ بہت کچھ بدل گیا۔ پسندیدگیاں، وارفتگیاں، وابستگیاں، نظریات اور بہت کچھ۔۔ چار سال چھے دن کا وہ بچہ آج 36 سال چھ دن کا ہو گیا ہے۔ والدین کے ورثے میں ضیا صاحب کے حوالے سے منتقل ہونے والے ’نرم گوشے‘ اور ’اسلام پسندی‘ کے باوجود وہ اب سچے دل سے سمجھتا ہے کہ ’ضیا صاحب‘ کی طویل حکمرانی نے ملک کے ہر شعبے کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا۔ کلاشنکوف کلچر، جہادی کلچر، فرقہ واریت، لسانیت، صوبائیت، ہیروئن کلچر، منافقت، ریا کاری، ذاتی مقاصد کے لیے مذہب کا بے دریغ استعمال، اخبارات پر سنسر شپ، صحافیوں کو پڑنے والے کوڑے اور دل و دماغ پر پڑنے والے تالے ضیا صاحب کی نیم وا چشم ناز کا حسن ہی تو تھے جو ملک و قوم کے لیے تیرگی کا سامان ثابت ہوئے۔
آج 17 اگست ہے تو آئیے ان حوالوں کو یاد کریں جو اپنی توقیر کھو چکے ہیں لیکن آج بھی ہمارے قومی وجود کی پہچان ہیں۔ گئے زمانے کے کھنڈر کے بیچوں بیچ ان روز و شب کے ناخدائوں کو تلاش کریں، جن کی قبریں پرانی ہوچکی ہیں۔ جن کے سرہانے لگے کتبوں کی سیاہی ماند پڑ گئی ہے۔ جو پکارنے کے باوجود جواب نہیں دیتے۔
17 اگست ہر سال جب آتا ہے تو لال کمال کی گرد پوش بستی کے بام و در ذہن میں ابھرنے لگتے ہیں، ماضی کی دھند میں لپٹے خوشحال و معتبر چہروں کے خدوخال نمایاں ہونے لگتے ہیں اور۔۔۔۔ بھر جانے والے پرانے زخم کا کوئی ٹانکہ بھی ادھڑ جاتا ہے اور لہو رسنے لگتا ہے۔