امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی فوجی عراق سے کھبی نہ کبھی تو چلی جائے گی تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی وقت نہیں بتایا۔
ایسا انہوں نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی سے ملاقات میں کہا۔ یہ دونوں لیڈروں کے درمیان پہلی ملاقات تھی۔
عراقی وزیراعظم سے بات چیت میں صدر ٹرمپ نے کہا: 'ظاہر ہے کہ کسی موقعے پر ہم عراق سے چلے جائیں گے۔ ہم نے فوجیوں کی تعداد بہت کم کر دی ہے۔'
انہوں نے مزید کہا: 'ہم کافی تیزی سے عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم کر رہے ہیں۔ ہماری نظر اس دن پر ہے جب ہمیں وہاں رہنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ امید ہے کہ عراق خود زندہ رہ سکتا ہے اور اپنا دفاع کر سکتا ہے۔'
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں فوجی معاملات ایجنڈے پر تھے۔ عراقی وزیراعظم نے مئی میں عہدہ سنبھالا تھا۔
عراق کے وزیراعظم الکاظمی نے کہا کہ وہ عسکریت پسند گروپ داعش کے خلاف جنگ میں امریکی مدد کے لیے شکرگزار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'امریکی حمائت کی بدولت عراقی عوام کے بہترین مفاد میں امریکہ کے ساتھ شراکت داری قائم ہوئی ہے۔'
امریکی فوج 2011 میں عراق سے چلی گئی تھی اور امریکی سفارت خانے میں ایک چھوٹا مشن چھوڑا تھا۔
تاہم کچھ سال بعد ہی مزید امریکی فوجی بھیجے گئے تاکہ عراقی فوج کی داعش کے خلاف جنگ میں مدد کر سکیں۔ داعش نے 2014 میں عراق میں شدید وار کیے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی صدر اور عراقی وزیراعظم کے درمیان ملاقات ایسے وقت ہوئی ہے جب عراق میں ایران نواز جنگجوؤں کے امریکی اہداف پر حملے بڑھ گئے ہیں۔
عراقی حکومت کو جہادی سرگرمیاں روکنے کی کوششوں کے حصے کے طور پر عراق میں موجود تقریباً پانچ ہزار امریکی فوجیوں کو نکالنے کے مطالبات کا سامنا ہے۔
الکاظمی نے جمعرات کو کہا ہے کہ امریکی حکام نے عراق میں سرگرم بعض گروپوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بعد میں انہوں نے مزید کہا: 'ریاستی نظام کے باہر کوئی ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔'
عراقی وزیراعظم کو عراقی شیعہ پیراملٹری گروپوں کے اتحاد حشدالشعبی کے مختلف دھڑوں کی جانب سے مسائل کا سامنا ہے۔ ان گروپوں کے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ ان گروپوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی نمائندوں نے امریکی فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
حشد نے امریکی اہداف پر حملوں میں حالیہ اضافے سے تعلق کی تردید کی ہے لیکن سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز اور دعووں سے اشارہ ملتا ہے کہ حشد مختلف ناموں سے کام کرنے والے گروپوں کے ذریعے امریکی اہداف پر حملوں میں ملوث ہے۔
عراقی وزیراعظم نے ان سرحدی چوکیوں پر قبضہ کرکے ان مسلح گروپوں کوناراض کردیا ہے جن کے ذریعے وہ سمگلنگ کا منافع بخش نیٹ ورک چلا رہے تھے جب کہ تاجروں سے ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔
عراق میں حالیہ ہفتوں میں حملے بڑھ گئے ہیں۔ امریکی فوج نے کہا ہے کہ منگل کو کی شام کو بغداد کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا جہاں امریکی فوجیوں نے اڈہ قائم رکھا ہے۔ تاہم یہاں داغے سے راکٹ سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔
اکتوبر سے لے کر جولائی کے آخر تک عراقی مسلح دھڑوں نے عراق میں امریکی مفادات پر 39 راکٹ حملے کئے۔