خیبر پختونخوا میں گھریلو تشدد سے متعلق مجوزہ قانونی بل پچھلے آٹھ سال سے اسلامی نظریاتی کونسل اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے مخالفت کا شکار ہے، تاہم اب نہ صرف تحریک انصاف کی حکومت بلکہ سول سوسائٹی، ویمن پارلیمنٹری کاکس، یو این ویمن اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین اس بل کو پاس کروانے کے لیے مشترکہ طور پر اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
اسی تناظر میں 17 اگست کو پشاور میں ویمن پارلیمنٹری کاکس، یو کے ایڈ اور اقوام متحدہ خواتین کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں ایک اہم تجزیاتی رپورٹ پیش کی گئی تاکہ خواتین پر تشدد کے خاتمے سے متعلق قوانین کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں، مسائل اور خامیوں کو سامنے لا کر قوانین پاس کروانے میں مدد حاصل کی جاسکے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر قانون سلطان محمد نے اس موقع پر اپنے پیغام میں بتایا کہ وہ اس وقت گھریلو تشدد اور کم عمری کی شادی پر پابندی کے حوالے سے بل کے لیے اسمبلی میں اتفاق رائے پیدا کر رہے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ صوبے کی تاریخ میں دو اہم قوانین ہوں گے۔
پاکستان میں حقوق نسواں پر کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق جنسی اور گھریلو تشدد کے واقعات کے حوالے سے پاکستان اس وقت دنیا کا چھٹا خطرناک ملک ہے، تاہم اس کے باوجود ملک میں سزا کی شرح کم تر ہے اور رپورٹ ہونے والے معاملات میں سے صرف 2 اعشاریہ پانچ فی صد ملزمان کو عدالتوں سے سزا سنائی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ خواتین کے ذیلی دفتر کی سربراہ زینب قیصر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو حالیہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ یہ 17 قوانین پر مشتمل ایک تجزیاتی رپورٹ ہے جس میں نہ صرف خواتین پر تشدد سے متعلق دیگر قوانین پر روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ یہ رپورٹ اس مرتبہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں گھریلو تشدد اور کم عمری کی شادی پر پابندی کے بل پاس کرنے کے لیے بھی راہ ہموار کرے گی۔
زینب قیصر نے بتایا: ’گھریلو تشدد بل کی جن شقوں پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے، ہم نے ان کا وزیر قانون کے ساتھ بیٹھ کر جائزہ لیا ہے، جس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک تو تفصیلی طور پر بل کو پڑھا نہیں جاتا، دوسرا یہ کہ ان شقوں کے مفہوم کو سمجھا ہی نہیں گیا، اسی لیے ہم اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ گھریلو تشدد کے خاتمے اور کم عمری کی شادی پر پابندی کے بل پر مسلسل رابطے میں ہیں۔‘
گھریلو تشدد کے خاتمے کے بل کی راہ میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟
خیبر پختونخوا میں گھریلو تشدد کے خاتمے کے بل کا ڈرافٹ پہلی بار 2012 میں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی متحدہ حکومت میں پیش ہوا تھا، جس پر جمیعت علمائے اسلام (ف) کے مفتی کفایت اللہ نے اعتراضات اٹھائے تھے۔
بعد ازاں 2014 میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے اسے دوبارہ ڈرافٹ کیا اور جب ڈیپارٹمنٹ آف لا نے اسے اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کیا تو انہوں نے اس بل کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
اس طرح یکے بعد دیگرے یہ بل 2016، 2018 اور 2019 میں پیش ہوتا رہا اور ہر بار مذہبی جماعتوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی مخالفت کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہوتا رہا۔ اس ضمن میں سول سوسائٹی کی جانب سے اس موضوع پر ہونے والے سینکڑوں سیمینارز اور ورکشاپس بھی غیرموثر ہی رہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے اس وقت کے چیئرمین محمد خان شیرانی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ 'اسلام سے بغض رکھنے والے پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں،' لہذا انہوں نے بل پیش کرنے والوں کے خلاف آرٹیکل 6 کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 227 اور 228 کے مطابق کوئی بھی قانون جو اسلام سے منافی ہو، اسے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔
خواتین کو جنسی، نفسیاتی اور معاشی زیادتیوں اور تشدد کی دیگر اقسام سے بچانے کے لیے یہ بل آخری بار 11 فروری 2019 کو خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔
جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ خان اور جے یو آئی (ف) کے مولانا لطف الرحمٰن نے سپیکر اسمبلی مشتاق احمد غنی سے مطالبہ کیا کہ جلدی میں اس بل کی منظوری سے گریز کریں، تاہم صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور سلطان محمد خان نے اس بل کا دفاع کیا اور یہ یقین دلایا کہ حکومت بل کی منظوری میں جلد بازی نہیں کرے گی۔ انہوں نے ایوان کے تمام اراکین خصوصاً حزب اختلاف اور خواتین قانون سازوں کو بھی دعوت دی کہ اس قانون میں ترامیم تجویز کریں۔
کیا خواتین کو تشدد سے تحفظ دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے؟
اسلامی نظریاتی کونسل، پاکستان میں کسی بھی قانون کے پاس ہونے سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ آیا متعلقہ قانون اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا نہیں۔
اس کے موجودہ چیئرمین قبلہ ایاز سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے سوال کیا کہ کیا خواتین کو تشدد سے تحفظ دینا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے؟ تو انہوں نے کہا: ’میں گھریلو تشدد بل کے خلاف نہیں ہوں، لیکن اس بل کی بعض شقیں اسلامی تعلیمات اور بعض معاشرتی اقدار کے مطابق نہیں ہیں۔ اگر ایک بل میں بہت سی اچھی باتیں ہوں اور بعض ایسی ہوں جن سے کسی طرح بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا ہو، تو ایسی قابل اعتراض شقوں کی وجہ سے پورا بل مسترد ہو جاتا ہے۔ ہمیں اپنا معاشرہ دیکھ کر ہی کوئی قانون بنانا ہوگا۔‘
قبلہ ایاز نے مزید بتایا کہ اسلام میں ’تشدد‘ نامی چیز کا تصور تک نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: ’پیغمبر اسلام نے کبھی زندگی میں اپنی ازواج پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا، لیکن اس طرح کے بلز اکثر معاشرتی نقطہ نظر کی وجہ سے بھی اختلاف کا باعث بن جاتے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کی خواتین سے تنظیم کی رائے:
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے موقف پر اقوام متحدہ خواتین (یو-این ویمن) کے پشاور دفتر کی سربراہ زینب قیصر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ قبلہ ایاز کی اس بات سے متفق ہیں کہ ایسی تجاویز پیش کی جائیں جو قابل قبول ہوں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’دراصل پہلے بھی جو شقیں تھیں ان کو سمجھا نہیں گیا تھا۔ ہم ایسی ہی تجاویز لانے کے حق میں ہیں جو قابل عمل بھی ہوں۔‘
دوسری جانب یو این ویمن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل اور گھریلو تشدد کی روک تھام کے بل پر تیزی سے کام ہو رہا ہے اور سول سوسائٹی اور حکومت پرعزم ہے کہ اس سال کے اختتام تک اس بل کو پاس کروایا دیا جائے۔