کراچی کی نوجوان مصورہ سحر شاہ رضوی 100 قومی ہیروز کے پورٹریٹ بناکر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کی خواہش مند ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں سحر شاہ رضوی نے بتایا: 'عالمی سطح پر دیکھیں تو مختلف قومیں اپنے قومی ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ڈرامے اور ڈاکیومینٹریز بناتی ہیں، مگر ہم اپنے قومی ہیروز کو یاد نہیں کرتے، اس لیے میں نے سوچا کہ اپنے 100 ہیروز کے پورٹریٹ بناؤں۔'
سحر شاہ رضوی ایک ویژول آرٹسٹ ہیں اور انہوں نے جامشورو میں واقع مہران یونیورسٹی کے سینٹر آف ایکسیلینس آرٹ اینڈ ڈیزائن سے گریجویشن کیا ہے۔
وہ اب تک عبدالستار ایدھی، انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والی حُر تحریک کے سابق سربراہ پیر صبغت اللہ راشدی المعروف سوریھہ بادشاہ، ذوالفقار علی بھٹو، سندھ کے کسانوں کے حقوق کے لیے تحریک چلانے والے رہنما حیدر بخش جتوئی، مشہور سندھی راگی علن فقیر، شاعر سچل سرمست، سندھی قوم پرست رہنما بشیر خان قریشی، سندھ کے نامور تاریخ نویس اور مصنف عطا محمد بھنبھرو، ماضی کے مشہور راگی کنور بھگت سمیت کئی افراد کے پورٹریٹ بناچکی ہیں، جن کو وہ قومی ہیرو مانتی ہیں۔
سحر شاہ نے بتایا: 'میں نے اماں جندو کا بھی پورٹریٹ بنایا ہے۔ میں ان کی لازوال جدوجہد سے بہت متاثر ہوں۔'
اماں جندو المعروف مائی جندو، مشہور ٹنڈو بہاول کیس سے منسلک ایک مزاحمتی کردار ہیں۔
جون 1992 میں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے نزدیک ایک گاؤں ٹنڈو بہاول میں پاکستانی فوج کے میجر ارشد جمیل کی سربراہی میں فوج کے ایک دستے نے چھاپہ مارا اور گاؤں کے نو کسانوں کو اٹھا کر لے گئے، جن میں مائی جندو کے دو بیٹے بہادر اور منٹھار اور داماد حاجی اکرم بھی شامل تھے۔ بعد میں ان افراد کو بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' سے تعلق کے الزام میں ہلاک کردیا گیا۔
اس واقعے کے خلاف مائی جندو نے احتجاجی تحریک چلائی جس کے دوران ان کی دو بیٹیوں حاکم زادی اور زیب النسا نے انصاف نہ ملنے پر حیدرآباد جی او آر کالونی میں واقع انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے سامنے پیٹرول چھڑک کر خود سوزی کرلی۔
بعدازاں عدالت میں یہ ثابت ہوگیا کہ ہلاک ہونے والے بے گناہ تھے، جس پر اکتوبر 1994 میں میجر ارشد جمیل کو ہلاک ہونے والوں کے ورثا کے سامنے حیدرآباد سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی جبکہ میجر ارشد جمیل کے 14 ساتھیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سحر شاہ رضوی نے مزید بتایا: 'میں مشہور سندھی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کا پورٹریٹ بنانے کے ساتھ ان کی سورمیوں کے بھی پورٹریٹ بناؤں گی، جو بھٹائی کی ہیروز ہیں۔ کئی صدیاں پہلے جب عورتوں کو تاریخ میں اتنی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی، تب اس دور میں شاہ عبدالطیف بھٹائی نے دقیانوس روایتوں کو توڑا اور بتایا کہ عورت ایک ہیرو ہے، وہ سورما ہے۔میں کوشش کروں گی کہ ان کو بھی آگے اپنی پینٹنگز میں پینٹ کرسکوں'۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کو 'شاہ جو رسالو' کہا جاتا ہے، جو 30 سروں پر مشتمل ہے۔ جن میں سات سر سورمیوں (سندھی زبان میں سورمی بہادر خاتون کو کہا جاتا ہے) کے نام سے منسوب ہیں۔ یہ رومانوی داستانوں کے خواتیں کردار ماروی، مومل، سسی، سوہنی، نوری، سورٹھ اور لیلیٰ ہیں، جن کے لازوال عشق، محبوب سے بچھڑنے کا درد جھیلنے اور محبت میں تڑپنے اور محبوب سے ملنے کے لیے کی گئی جدوجہد کو بھٹائی نے اپنی شاعری میں سراہا ہے۔
سحر کے فن پاروں کی پاکستان کے ساتھ امریکہ، اٹلی اور ملائیشیا سمیت مختلف ممالک میں 80 نمائشیں ہوچکی ہیں۔ انہوں نے بتایا: 'میں بہت جلد ایک نمائش منعقد کروں گی، جس میں بہت سی شخصیات کے پورٹریٹ شامل کروں گی۔'
سحر شاہ رضوی، ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے سابق میزبان اور نامور ڈرامہ نویس ماکن شاہ رضوی کی صاحبزادی ہیں۔
انہوں نے کہا: 'میری خواہش ہے کہ میں اپنے ملک کی نامور ہستیوں اور ہیروز کو آنے والی نسلوں تک اپنے فن کے ذریعے پہنچا سکوں تاکہ کبھی اگر میں نہ بھی رہوں تو بھی میرا کام باقی رہے۔'