یونان کی جانب سے بحیرہ روم میں اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ جاری جنگی مشقوں کے بعد ترکی نے بھی جمعرات کو خطے میں بحری مشقوں کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔
یونان نے ایک روز قبل فرانس، اٹلی اور قبرص کے ساتھ مشرقی بحیرہ روم میں فوجی مشقوں کا آغاز کیا تھا۔ جس پر ترکی نے یونان کو خبردار کیا تھا کہ وہ ایسے اقدامات کرنے سے باز رہے جو اس کی ’بربادی‘ کا باعث بنیں۔ دوسری جانب جمعرات کو انقرہ کی جانب سے فرانس پر بھی خطے میں ’بدمعاشی‘ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
فرانس یورپین یونین کے طاقت ور کیمپ میں یونان کی حمایت کی قیادت کر رہا ہے۔ فرانسیسی فریگیٹ اور لڑاکا طیارے بدھ کو یونانی جنگی مشقوں میں شامل ہوئے جبکہ اٹلی اور قبرص بھی ان مشقوں میں شامل ہیں۔
اس کشیدگی میں فرانس کی مداخلت پر انقرہ پریشانی کا شکار ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترک وزیر دفاع نے پیرس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’بدمعاشی کا دور گزر چکا ہے۔آپ ہمیں دھونس کے ذریعے اقدامات کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے خطے میں فرانسیسی فوج کی موجودگی کے بارے میں کہا: ’ترکی یا ترک مسلح افواج کی سرگرمیوں کو روکنے یا تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنا خواب کے علاوہ کچھ نہیں۔‘
ترک بحریہ کی جانب سے جمعرات کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ بحیرہ روم میں اپنی حدود کے آخری کنارے کے پانیوں میں آئندہ منگل اور بدھ کو توپوں سے جنگی مشقیں کریں گے۔
ترکی کے وزیر دفاع ہولوسی آکار نے کہا کہ یہ مشقیں سلامتی سے متعلق ہیں اور ان کا سمندر سے گیس کی تلاش کے حوالے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ترکی کی جانب سے بحیرہ اسود میں قدرتی گیس کی دریافت کے اعلان نے یونان اور یورپی یونین میں بے چینی پھیلا دی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی اور یونان دونوں ہی نیٹو کے ارکان ہیں اور ایک ہی وقت میں جنگی مشقوں کا انعقاد کر رہے ہیں، یہ تناؤ توانائی کے بڑے ذخائر تک یورپ کی رسائی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور جنگ سے متاثرہ لیبیا اور مشرق وسطیٰ کے کچھ حصوں میں مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔
امریکہ کی مداخلت؟
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو یونانی وزیراعظم کریاکوس میتسوتاکیس اور ترک صدر رجب طیب اردوغان سے گفتگو کی ہے جسے بڑھتی ہوئی کشیدگی میں ان کی پہلی براہ راست مداخلت سمجھا جا رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ ’صدر ٹرمپ نے نیٹو کے اتحادی ممالک یونان اور ترکی کے مابین بڑھتے ہوئے تناؤ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔‘
ترکی نے 10 اگست کو اپنے تحقیقی بحری جہاز کو خطے کے متنازع پانیوں میں گیس کی تلاش کے لیے بھیجا تھا۔ یونان بھی سمندر کے اس حصے پر ملکیت کا دعویدار ہے۔ ترکی کے اس تحقیقاتی مشن کی سرگرمیاں گذشتہ اتوار کو ختم ہونے والی تھیں لیکن اب انہیں جمعرات تک بڑھا دیا گیا ہے۔
ترکی کے وزیر دفاع نے یہ نہیں بتایا کہ آیا یہ تحقیقی بحری جہاز اور اس کے ساتھ نیوی فریگیٹس منصوبے کے مطابق جمعرات کو واپس لوٹ آئیں گی یا اس میں مزید توسیع کی جائے گی۔
لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ مشرقی بحیرہ روم میں ترک مشقوں اور گیس کی تلاش کے لیے نہ تو کوئی آخری تاریخ اور نہ ہی کوئی حد مقرر کی گئی ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’ضرورت کے مطابق کام جاری رکھا جائے گا۔ ہم اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔‘
یورپی یونین کی کشمکش
حالات کو قابو میں رکھنے اور مذاکرات کو ٹریک پر لانے کے لیے جرمنی کی کوششیں اب تک غیر موثر ثابت ہوئی ہیں۔
دوسری جانب یورپی یونین کے وزرائے خارجہ آج (جمعرات کو) ہونے والے ہنگامی اجلاس میں اس بحران سے نمٹنے کے لیے برلن میں سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونان کے وزیر اعظم کریاکوس میتسوتاکیس نے کہا ہے کہ ’ایتھنز واضح طور پر کشیدگی کم کرنے کے لیے تیار ہے تاہم اس کے لیے ترکی کو اپنی اشتعال انگیز کارروائیوں کو فوری طور پر روکنا ہو گا۔‘
صدر اردوغان نے پہلے ہی یونان سے مذاکرات سے قبل پیشگی شرائط ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
اس دوران یورپی یونین ترکی کو جواب دینے کے طریقے پر تقسیم نظر آتا ہے۔
14 اگست کو یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی ویڈیو کانفرنس میں یونان ترکی پر پابندیاں عائد کرانے کی کوششوں میں ناکام رہا تھا کیوں کہ ترکی کو جنوبی یورپی کے کچھ ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
توقع ہے کہ جمعرات اور جمعے کو برلن میں یورپی یونین کے اجلاس میں یونان ترکی پر پابندی عائد کرانے کی دوبارہ کوشش کرے گا۔