یہ غداری ہے۔ کیا لغت میں دغا بازی کے لیے اس سے بہتر اور کوئی لفظ موجود ہے؟ کُردوں کے مغربی اتحادیوں نے ایک بار پھر ان سے دھوکےبازی کر دی ہے۔
ہینری کسنجر کی طرح اور ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح۔ اور پھر اوپر سے ترکوں کی آمد ہوتی ہے، جو ایک مرتبہ پھر اپنی سرحدوں کو عبور کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ’دہشت گردوں‘ کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جبکہ وہ عفرین میں النصرہ کی مدد کرنے کو بالکل تیار تھے اور تب بھی جب داعش کی جانب سے سمگل کیا جانے والا تیل آزادانہ ان کے ملک پہنچ رہا تھا۔
اور اب ٹرمپ کو اچانک احساس ہو گیا ہے کہ ترک ان کے اچھے اتحادی نہیں ہیں جبکہ امریکی صدر نے چار روز قبل خوشی خوشی ان کو شمالی شام میں جارحیت کی اجازت دی تھی۔
اگر واشنگٹن میں ’میڈ ہاؤس‘ کی جانب سے پاگل پن کی کوئی اور مثال ہوسکتی ہے تو وہ تفرقہ انگیزی اور دیوانہ پن کی یہی پالیسی ہے جسے امریکی اب بھی شمالی شام میں برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ایک لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے ہیں اور درجنوں شہری مارے جا چکے ہیں۔ اگرچہ ترکی سے اپنا علاقہ واپس لینے کے امکانات زیادہ خطرناک معلوم ہوتے ہیں، اس کے باوجود دمشق میں بشارالاسد حکومت یقیناً اس تماشے پر خوش ہو رہی ہو گی۔
لیکن شام میں حملہ آوروں کا آپس میں لڑنا اس تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے جہاں حکومت یہ جنگ تقریباً جیت چکی تھی۔
خود ٹرمپ کے ترکوں، کردوں، شمالی فرانس کے نارمنز اور یہاں تک کہ دوسری عالمی جنگ عظیم کے بارے میں بھی متعصبانہ بیانات محض ایک بار پھر یہ ثابت کرتے ہیں کہ امریکی صدر پاگل ہیں۔
ٹرمپ نے کچھ ماہ قبل ہمیں بتایا تھا کہ امریکی شام سے لوٹ رہے ہیں۔ وہ پھر اسے دہراتے ہیں۔ اور شاید ہی کسی نے اس سے قبل داعش کے دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں سوچا ہو۔
شاید وہ سرحد کے قریب قید خانوں سے فرار ہو جائیں۔ کیا ہم ایک بار پھر داعش کو یورپ میں دیکھ رہے ہوں گے جو اُن 36 لاکھ مہاجرین کے ساتھ فرار ہو رہے ہوں گے جن کے بارے میں انقرہ نے یورپ کو دھمکی دی ہے؟
صرف ٹرمپ ہی انتشار کا سبب نہیں بن رہے ہیں بلکہ اس کے پیچھے پوری امریکی سلطنت ہے، ان کی پاگل پن پر مبنی خارجہ پالیسیاں اور ٹرمپ کے حامیوں کی جہالت جو اب واشنگٹن کی اسٹیبلشمنٹ کا ٹھکانہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یورپی یونین اتنی سست روی کا مظاہرہ کیسے کر سکتی ہے جبکہ ترکی وسیع پیمانے پر نسل کشی کی جانب بڑھ رہا ہے کیونکہ یہ ان کی عرب ملیشیا ہیں جو اب شمالی شام میں دکھائی دے رہی ہیں۔ کوئی بھی اس ناجائز کاروبار کو کس طرح جائز قرار دے سکتا ہے؟
کتنے اذیت ناک اور خوفناک طریقے اور کتنی بے رحمی سے کردوں کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ کیا اسی طرح اردوغان 16 سال اقتدار کے بعد تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
پہلے انہوں نے اپنی ہی فوج پر الزام لگایا کہ وہ ترکی میں بغاوت کی کوشش کے پیچھے ہے، پھر وہ اسی فوج کو شام بھیج دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اردوغان اور ٹرمپ کے مابین اس سے بھی زیادہ مشترکہ خصوصیات ہوں جن کا ہم تصور کر سکتے ہیں۔
لیکن گذشتہ ہفتے کے واقعات نے یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے پورے خطے میں بین الاقوامی طرز حکمرانی کس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے۔ طاقت کے مراکز، خاص طور پر کرہ ارض کی طاقتور ترین قوم امریکہ کس طرح علاقائی جنگ میں ناکامی اور ناامیدی کا باعث بنی۔
ٹرمپ کی بے وقوفیوں اور ان کی حیرت انگیز حماقت کے باعث اس خطے میں ایک بار پھر درجنوں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ اور خطرناک دنیا ہے جہاں مشرق وسطیٰ اب بھی جل رہا ہے اور آنے والے ہفتوں میں یہ آگ مزید پھیل جائے گی۔
2011 کے ان انقلابات کو کتنا عرصہ بیت گیا ہے جب امید کی چھوٹی کرنیں پھوٹ پڑی تھیں لیکن پھر یہ اتنی تیزی سے کیسے غائب ہو گئیں؟
مصر اب ایک سفاک آمریت ہے۔ لیبیا انتشار کا شکار ہے، یمن بکھرا ہوا ہے۔ پوری عرب دنیا میں جمہوریت کا وجود نہیں ہے (لبنان میں شاید کچھ جمہوریت بچ گئی ہے) اور امریکی اب بھی سعودی عرب میں نئی آزادیوں پر یقین رکھتے ہیں اگرچہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ ایک لاپتہ صحافی اور امریکی شہری جن کے جسمانی اعضا شاید ہمیں کبھی نہ مل پائیں۔
آج جمال خاشقجی کی آواز سنائی دے رہی ہوتی لیکن ٹرمپ کی طرف سے ان کی یاد کو بھی سعودی شاہی خاندان کی خاطر مکمل طور پرفراموش کر دیا گیا ہے۔ بے شک یہ غداری ہے۔
© The Independent