بیروت میں ہونے والے تباہ کن دھماکے کے نتیجے میں 190 افراد کی ہلاکت اور عوامی دباؤ کے بعد حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد جرمنی کے لیے لبنان کے سفیر کو ملک کا اگلا وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا ہے۔
منتخب ہونے کی تھوڑی دیر بعد ہی مصطفیٰ ادیب نے ریکارڈ مدت میں حکومت بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے تاکہ لبنانی عوام اور بین الااقوامی برادری کا اعتماد حاصل کر کے ضروری اصلاحات عمل میں لائی جا سکیں۔
ان کو وزیر اعظم منتخب کرنے کا فیصلہ لبنان کے قانون سازوں کی اکثریت اور لبنان کے صدر مشیل عون نے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے ایک ماہ میں دوسرے دورہ لبنان سے کچھ دیر قبل کیا۔
اپنے دورے سے قبل میکرون نے انتباہ کیا تھا کہ سابقہ فرانسیسی نو آبادی خانہ جنگی کے دہانے پر ہے اور وہ ملک کی تقسیم شدہ قیادت کو مجبور کریں گے وہ بدعنوانی کو ختم کرتے ہوئے طویل عرصے سے درکار اصلاحات پر عمل کریں۔
لبنان کے اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے کے ڈیڈ لاک کے بعد میکرون کی ثالثی ادیب کے انتخاب میں اہم رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لبنان کی حکمران جماعت کو جلد حکومت قائم کرنے اور بڑی سیاسی تبدیلی کے لیے بین الااقوامی دباؤ کا سامنا تھا تاکہ وہ لاکھوں ڈالر کی امداد حاصل کی جا سکے جس کا چار اگست کو ہونے والے دھماکے میں معاشی انہدام کے بعد بیروت کی تعمیر نو کے لیے اعلان کیا گیا تھا۔
یہ دونوں بحران برسوں سے جاری بدعنوانی اور بدانتظامی کا شاخسانہ ہیں۔
ادیب ایک غیر معروف سفارت کار ہیں جو کہ لبنان کے شمالی شہر تریپولی میں بطور سنی مسلمان پیدا ہوئے۔ یہ بات انہیں لبنان کے فرقہ واریت پر مبنی طاقت کی تقسیم کے نظام میں وزیر اعظم بننے کا اہل بناتی ہے۔
سوموار کو انہوں نے ماہرین کی ایک کابینہ قائم کرنے کا وعدہ کیا ہے جو پارلیمان کے ساتھ کام کرے گی تاکہ 'ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے خطرناک سماجی اور معاشی نقصان کو ختم کیا جا سکے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمارے ملک کے سامنے موجود موقعے کا وقت بہت کم اور مشکل ہے اور میں نے یہ مشن قبول کیا ہے اور تمام سیاسی گروہ اس بات کو جانتے ہیں۔ حکومت کو جلد سے جلد قائم کرنا چاہیے۔'
انہیں اتوار کو پہلی بار ممکنہ امیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا تھا جب انہیں تین سابقہ وزرائے اعظموں کی جانب سے نامزد کیا گیا تھا جن میں لبنان کی سب سے بڑی سنی مسلمان جماعت فیوچر موومنٹ کے سربراہ سعد حریری بھی شامل تھے۔
ادیب کو لبنان کے ایرانی حمایت یافتہ طاقتور شیعہ گروہ حزب اللہ، معروف دروز سیاست دان ولید جمبلات کی پروگریسو سوشلسٹ پارٹی، اور لبنانی صدر عون کی قائم کردہ کرسچین فری پیٹریاٹک موومنٹ کی حمایت بھی حاصل ہے۔
لبنانی فورسز ایک اور مسیحی گروپ وہ واحد جماعت ہے جس نے ان کی حمایت نہیں کی۔ اس گروپ نے ایک اور سفارت کار نواف سلام کی حمایت کی جن کی حزب اللہ کی جانب سے سخت مخالفت کی گئی ہے۔
قانون اور پولیٹکل سائنس میں پی ایچ ڈی یافتہ ادیب نے اپنا کرئیر بطور یونیورسٹی لیکچرار کے شروع کیا تھا اور بعد میں انہیں پروفیسر کا عہدہ دیا گیا۔ 2013 میں جرمنی میں لبنان کا سفیر تعینات ہونے سے قبل انہیں نے کئی وزارتوں کے ساتھ کام کیا تھا۔
ان کا سابق کروڑ پتی وزیر اعظم نجیب میکاتی کے ساتھ مشیر کے طور پر قریبی تعلق رہا ہے۔ نجیب میکاتی بھی ان تین وزرائے اعظم میں شامل تھے جنہوں نے ادیب کو نامزد کیا ہے۔
میکاتی کو 2015 میں فوربز کی جانب سے لبنان کا امیر ترین فرد قرار دیا گیا تھا۔ اکتوبر میں ان پر ایک سستی رہائشی سکیم سے غیر قانونی طریقے سے دولت کمانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ میکاتی ان الزامات کی پرزور تردید کرتے ہیں۔
فرانس کے صدر میکرون منگل کو لبنانی سیاست دانوں سے بیروت میں ملاقاتیں کریں گے۔ بظاہر انہوں نے یہ معاملہ حل کروایا ہے۔ ان کی جانب سے لبنانی سیاست دانوں کے ساتھ فون پر بات چیت کی گئی جس کے بعد وہ مصطفی ادیب کی نامزدگی کو یقینی بنا سکے۔
ایک سینئیر لبنانی سیاست دان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: 'یہ سب پر میکرون کی فون کال کا دباؤ تھا، ان کے لبنان آنے کا دباؤ تھا اور سب پر انہیں ناراض نہ کرنے کا دباؤ تھا۔'
لبنان میں سابق وزیر اعظم حسن دیاب کی نامزدگی اور سابق حکومت قائم کرنے میں کئی ماہ کا وقت صرف ہوا تھا۔ حسن دیاب کو تمام جماعتوں کی اس حد تک حمایت بھی حاصل نہیں تھی جو مصطفی ادیب کو حاصل ہے۔
ادیب نے اپنے عہدے سے 10 اگست کو استعفیٰ دیا تھا۔ یہ بیروت میں ہونے والے اس تباہ کن دھماکے سے چھ دن بعد تھا جس میں 190 افراد ہلاک اور 6500 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ یہ دھماکہ ممکنہ طور پر غلط طریقے سے سٹور کی گئی امیونیم نائٹریٹ کے ہزاروں ٹنوں کو آگ لگنے سے ہوا تھا۔
اس دھماکے میں بیروت میں لاکھوں ڈالرز اور 50 ہزار گھروں کا نقصان ہوا تھا۔ دھماکے میں نو ہسپتال اور 178 سکول بھی متاثر ہوئے تھے ۔
© The Independent