بلوچستان پولیس نے سابق رکن صوبائی اسمبلی عبدالمجید اچکزئی کی ماڈل کورٹ سے بریت کے فیصلے کے خلاف پیر کو بلوچستان ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایڈیشنل آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کے مطابق اپیل کی درخواست کی تیاری آخری مراحل میں ہے، ماڈل کورٹ کےتفصیلی فیصلے اور دستاویزات کا جائزہ لے کر درخواست کو حتمی شکل دیں گے۔
خیال رہے کہ ماڈل کورٹ کوئٹہ کے جج دوست محمد مندوخیل نے چار ستمبر کو مجید اچکزئی کو ٹریفک سارجنٹ قتل کیس میں عدم ثبوت کی بنا پر باعزت بری کیا تھا۔ مجید اچکزئی کی جانب سے کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ ،خلیل الرحمٰن،نور جان بلیدی اور جعفر اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
انہوں نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ استغاثہ یہ ثابت نہیں کرسکی کہ ٹریفک اہلکار کو ٹکر مارنے والی گاڑی مجید اچکزئی چلارہے تھے۔ واضح رہے کہ مجید اچکزئی کی گاڑی کی ٹکر سے 2017 میں ٹریفک سارجنٹ عطااللہ ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد ان کو گرفتار کیا گیاتھا۔
ماڈل کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے مطابق استغاثہ عبدالمجید اچکزئی کےخلاف کافی ثبوت ریکارڈ پرنہیں لا سکی، فیصلے میں کہا گیا کہ پہلے پولیس نے 20جون، 2017کو نامعلوم افراد کےخلاف فوری مقدمہ درج کیاجبکہ عبدالمجید اچکزئی کو24 جون، 2017 کو گرفتار کیاگیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ملزم عبدالمجید نے تفتیش کےدوران بیان دیاکہ وہ نہیں بلکہ ان کے ڈرائیورگاڑی چلارہے تھے، 14روزہ ریمانڈ کےدوران عینی شاہدین سےعبدالمجیدکی کوئی شناخت پریڈ نہیں کروائی گئی۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عینی شاہدین نےعبدالمجید کو واقعے میں نامزدنہیں کیا،پراسکیوشن کےتمام 20گواہوں میں سے کسی نےتصدیق نہیں کی کہ گاڑی ملزم چلارہاتھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ پراسکیوشن ملزم کا جرم سے تعلق ثابت کرنے میں ناکام رہی، لہٰذاکیس میں شک کا فائدہ ملزم عبدالمجید دیتے ہوئے 302, 324, 320سمیت دیگر دفعات کےتحت الزامات سے بری کر دیا گیا۔
ماڈل کورٹ نے گاڑی کو کاغذات کی تصدیق کےبعد مالک کےحوالے کرنےاور مرحوم ٹریفک سارجنٹ کےخون آلود کپڑےان کے لواحقین کےحوالےکرنےکاحکم دیا۔ عدالتی فیصلے میں واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی حامل سی ڈیز حفاظت میں رکھنے کاحکم بھی دیا گیا۔
ادھر مقتول ٹریفک سارجنٹ عطااللہ کے بڑے بیٹے معظم دستی نے پولیس کی طرف سے مجید اچکزئی کی بریت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ معظم دستی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمارے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہوا ہے،عدالت نے مجید اچکزئی کو کیسے بری کردیا؟
معظم کے مطابق مقتول ٹریفک سارجنٹ کے پانچ بچے ہیں جن میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔'جب یہ واقعہ ہوا تو مجید اچکزئی کی طرف سے معافی اور فیصلہ کرنے کے حوالےسے رابطہ کیا گیا تھا لیکن ہم نے کوئی فیصلہ کرنے سے منع کردیا تھا جس کے بعد انہوں نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔'
معظم کے بقول،والد کی تنخواہ مل رہی ہے لیکن مقتول کے بیٹے کو ملازمت دینے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایس ایس پی ٹریفک نے ان سے رابطہ کرکے پوچھا کہ آپ لوگوں نے مجید اچکزئی کے ساتھ کوئی فیصلہ تو نہیں کیا کیونکہ ہم عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے والے ہیں، جس پر میں نے بتایا کہ ہم نے کسی کو کوئی معافی وغیرہ نہیں دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معظم کے مطابق، جب کیس چل رہا تھا تو وہ عدالت میں پیش ہوتے رہے، اس دوران سرکاری وکیل صرف پانچ دفعہ عدالت میں پیش ہوئے جس کے بعد انہوں نے عدالت جانا چھوڑ دیا۔
یاد رہے کہ مجید اچکزئی چھ ماہ جیل میں رہنے کے بعد دسمبر 2017 کو کوئٹہ جیل سے ضمانت ملنے کے بعد رہا ہوئے۔ ان پر جعلی نمبر پلیٹ ، اغوا برائے تاوان اور قتل کے مزید تین مقدمات قائم کیے گئے تھے، جن میں سے دو مقدموں میں ان کو بری کیا گیا جبکہ قتل کے مقدمات میں ضمانت پر رہائی ملی۔
ٹریفک حادثہ کیس میں گرفتاری کے بعد وہ پہلی بار 22 اگست، 2017 کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ انہوں نے اجلاس میں پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کے رویے کے خلاف تحریک استحقاق بھی پیش کی تھی۔
سوشل میڈیا پر مجید اچکزئی کے باعزت بری ہونے پر صارفین مختلف رد عمل کا اظہار کررہے ہیں۔ ایک صارف جمیل فاروقی نے ٹویٹ کی کہ تمام تر ثبوتوں کے باوجود مجید اچکزئی کی رہائی انصاف کے قتل عام کے مترادف نہیں تو کیا ہے؟
ایک اورصارف نے واقعے کی سی سی ٹی وی ویڈیوشیئر کرتے ہوئے لکھا کہ کیا واقعے کے حوالے سے اس ویڈیو سے زیادہ کوئی ثبوت ہوسکتا ہے۔