ناریلی سندھ کے صحرائے تھر کا صدیوں پرانا ساز ہے۔ ناریل سے بننے کی وجہ سے اس کا نام ناریلی ہے۔
یہ ہندوؤں کے دیوتاؤں کا ساز بھی جانا جاتا ہے۔ اس ساز کو پجاری مختلف اوقات پر بجاتے ہیں۔
صحرائے تھر میں گانا بجانے والے ہندو پجاریوں کو بھوپا کہتے ہیں۔
ڈاڑھوں بھیل سانگھڑ کے نزدیک ایک گاؤں میں رہنے والے ایک بھوپا ہیں۔ تقریباً 50 سال کی عمر والے ڈاڑھوں پیشے کے لحاظ سے ایک کسان ہیں۔ ان کے آباواجداد کا تعلق صحرائے تھر سے ہے۔ ناریلی بجانا انہوں نے اپنے والد سے بچپن میں سیکھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاڑھوں کا کہنا ہے کہ ناریلی کو خوشی کے مواقعے پر بھی بجایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھوپے ناریلی کو 'انسانوں سے جن نکالنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔'
ان کا ماننا ہے کہ جن ناریلی سے ڈرتے ہیں اور مخصوص طریقے سے ناریلی بجانے سے جن انسان کو چھوڑ کر خود اپنی جان بچاتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جن چاہے مرد، عورت یا بچے کو لگا ہو، ناریلی بجانے سے بھاگ جاتا ہے اور مریض ٹھیک ہو جاتا ہے۔
اس عمل کو مکمل کرنے میں 5 سے 10 گھنٹے جبکہ بعض اوقات ساری رات بھی لگ جاتی ہے۔
بھوپے کو اس کام کا معاوضہ بھی ادا کیا جاتا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاڑھوں نے بتایا کہ ناریلی کو ہندوؤں کی مخصوص ذاتیں بجاتی ہیں جن میں بھیل، ٹھکر اور راجپوت شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ناریلی کو پاک جگہ رکھا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے بعض ممالک بشمول پاکستان میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنات بعض انسانوں پر قبضہ کرلیتے ہیں اور مخصوص اوقات پر انسانی جسم میں داخل ہوسکتے ہیں۔ تاہم میڈیکل سائنسز اس بات کو مسترد کرتے ہوئے ایسی صورت حال کو دماغی امراض کے ساتھ جوڑتی ہے۔