سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب شعیب دستگیر کو ہٹانے اور عمر شیخ کو نیا کیپٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) لاہور تعینات کرنے کے حوالے سے اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پولیس افسران کو سیاسی مخالفت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ نئے سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو خاص طور پر مسلم لیگ ن کو ٹارگٹ کرنے کے لیے تعینات کیا گیا ہے جبکہ پنجاب کا پانچواں آئی جی تبدیل کیے جانے کے فیصلے کو ایک اور لیگی رہنما ملک احمد خان نے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
ملک احمد خان نے اپنی دائر درخواست میں چیف سیکرٹری پنجاب سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے، جس کے مطابق: 'پولیس آرڈیننس 2002 کے مطابق آئی جی پنجاب کو تین سال کے لیے تعینات کیا جاسکتا ہے جبکہ موجودہ حکومت نے صرف دو سالوں کے دوران پانچ آئی جیز تبدیل کردیے ہیں، لہذا عدالت پنجاب حکومت کا یہ اقدام کالعدم قرار دے۔'
دوسری جانب مسلم لیگ ن کی رکن پنجاب اسمبلی سمیرا کومل نے اسمبلی سیکرٹیریٹ میں جمع کروائی گئی ایک قرار داد میں وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
قرارداد کے متن کے مطابق آئی جی کا وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ کام سے انکار گورننس فیل ہونے کا ثبوت ہے اور شعیب دستگیر کو مسلم لیگ (ن) کے خلاف انتقامی کاروائیاں نہ کرنے کی وجہ سے عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔'
تاہم پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت چیمہ نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'وزیر اعظم عمران خان پولیس میں اصلاحات، پنجاب میں پولیس کلچر کی تبدیلی، بدعنوانی کا خاتمہ اور جرائم پر قابو پانا چاہتے ہیں۔ اس فیصلے کا مقصد بھی اہداف حاصل کرنا ہے نہ کہ سیاسی بنیاد پر کسی افسر کی تعیناتی یا پولیس کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنا۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'پی ٹی آئی کا عزم ہے کہ پنجاب پولیس کو ایک مثالی ادارہ بنایا جائے، جس کے لیے ایسے اقدامات ناگزیر ہیں۔'
نئی تعیناتیوں سے پولیس کے سینیئر افسران میں بھی بے چینی
پنجاب میں آئی جی پولیس کی تعیناتی کا معاملہ مسلسل ایک بحرانی صورت حال کا شکار ہے، جس کی وجہ سے پولیس ملازمین کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے مختلف پولیس افسران سے بات کی اور یہ معلوم ہوا کہ پنجاب پولیس اس وقت شدید سیاست، دھڑے بندیوں اور بدعنوانی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے صوبے میں جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکا۔
گذشتہ 26ماہ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب میں پانچ آئی جیز تبدیل کیے ہیں لیکن کوئی ایک بھی حکومتی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا۔ حال ہی میں عہدے سے ہٹائے جانے والے آئی جی شعیب دستگیر کی کارکردگی کی وزیر اعظم عمران خان نے متعدد بار تعریف کی مگر نو ماہ میں ہی انہیں تبدیل کرکے ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب انعام غنی کو نیا آئی جی پنجاب تعینات کر دیا گیا۔
شعیب دستگیر کے حوالے سے پولیس کے کچھ سینیئر افسران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ فیلڈ سے کافی عرصہ تک دور رہے تھے اور اچانک انہیں نو ماہ پہلے فیلڈ میں لگا دیا گیا۔ اس کے علاوہ وہ ضلعی پولیس کے معاملات میں براہ راست مداخلت کیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز اور ریجنل پولیس افسران میں بھی بے چینی پائی جاتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شعیب دستگیر کی تبدیلی کی ایک اور بڑی وجہ ان کے اور نئے سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے درمیان اختیارات کے معاملے پر اختلاف بھی ہے۔پولیس ذرائع کے مطابق سابق آئی جی شعیب دستگیر، عمر شیخ کو سی سی پی او لاہور لگانے کے مخالف تھے جس کا انہوں نے اعلیٰ حکام کے سامنے کھلم کھلا اظہار کیا تھا، تاہم ان کی مخالفت کے باوجود عمر شیخ کو سی سی پی او لاہور لگا دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق سی سی پی او کا چارج سنبھالنے کے بعد عمر شیخ نے اپنے ماتحتوں کو واضح الفاظ میں کہا کہ آئی جی آفس کے کسی آرڈر پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں ہوگا جب تک ان سے نہ پوچھ لیا جائے۔ اسی میٹنگ میں انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ ان کی تعیناتی آئی جی کی مرضی کے خلاف ہوئی ہے۔
ان سب باتوں کا اعتراف عمر شیخ نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بھی کیا، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ 'پولیس والوں کو پولیس کی زبان میں سمجھانا پڑتا ہے، اسی لیے اس طرح کی بات کی۔' سابق آئی جی شعیب دستگیر نے نئے سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی آئی جی آفس اور عہدے کے خلاف گفتگو کے حوالے سے انکوائری کا مطالبہ بھی کیا تھا، جس کے فوری بعد انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
واضح رہے کہ سی سی پی او لاہور کا عہدہ، پولیس آرڈر 2002 کے تحت آئی جی کے بعد دوسرا طاقتور ترین عہدہ ہے۔ نئے سی سی پی او عمر شیخ اپنی ترقی کے حوالے سے بھی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق 20 سے 21 ویں گریڈ میں ترقی کے لیے قائم کردہ سلیکشن بورڈ نے انٹیلی جنس ایجنسیز کی جانب سے معلومات کی بنیاد پر عمر شیخ کی ترقی کی سفارش نہیں کی تھی، اس کے باوجود انہیں اس اہم پوسٹ پر تعینات کر دیا گیا۔
نئے آئی جی کی تقریب سلامی میں تاخیر
نئے آنے والے آئی جی انعام غنی کی تقریب سلامی بھی بدھ کے روز کافی دیر تک کھٹائی کا شکار رہی۔ ذرائع کے مطابق شعیب دستگیر نے صبح 11 بجے تک اپنے عہدے کا چارج نہیں چھوڑا تھا، جس کی وجہ سے انعام غنی کی تقریب سلامی، جو کہ عہدے کا چارج لینے کی رسم ہوتی ہے، تاخیر کا شکار ہو گئی۔
نئے آئی جی پنجاب انعام غنی کے حوالے سے بھی سینیئر پولیس افسران متضاد رائے رکھتے ہیں اور بہت سے افسران کو ان کی تعنیاتی پر تشویش ہے۔ ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'پنجاب پولیس میں انعام غنی بھی ایک متنازع افسر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، جس کی وجہ ان کےخلاف کچھ برسوں پہلے ایف آئی کی جانب سے انسانی سمگلنگ کے حوالے سے کی جانے والی انکوائری ہے جس سے انہوں نے بڑی مشکل سے چھٹکارا حاصل کیا تھا۔'
نئے آئی جی پنجاب انعام غنی کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع مالاکنڈ سے ہے۔ انہوں نے 1989 میں سی ایس ایس کرکے پولیس سروس میں بطور اے ایس پی شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ اے آئی جی آپریشنز اور ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن، ایل ایل بی اور ایل ایل ایم کرنے والے انعام غنی نے پولیس اکیڈمی، موزمبیق امن مشن برائے اقوام متحدہ اور ایف آئی اے کے علاوہ خیبر پختونخوا کے مختلف ضلعوں میں پولیس سربراہ کی حیثیت سے بھی کام کیا ہے۔
پنجاب پولیس کے سینیئر پولیس افسران سمجھتے ہیں کہ بار بار بڑے پیمانے پر تبدیلیوں سے پنجاب پولیس کا مورال بہت نیچے چلا گیا ہے۔ 'جو نیا افسر آتا ہے وہ اپنے حساب سے کام کرواتا ہے اور یہ افسران خود کو بادشاہ جبکہ ماتحتوں کو وزیر سمجھتے ہیں اور اس کے بعد وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ صوبے سے جرائم کا خاتمہ ہو جائے۔'