لبنان کے دارالحکومت بیروت کی بندرگاہ میں جمعرات کو ایک بار پھر آگ بھڑک اٹھی جس سے شہریوں میں نہ صرف خوف و ہراس پھیل گیا بلکہ عطیے میں ملنے والی ذخیرہ شدہ خوراک کی اشیا کے تباہ ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا۔
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق گذشتہ ماہ ہونے والے تباہ کن دھماکے کے بعد جمعرات کو متاثرہ بندرگاہ میں پھر آگ بھڑک اٹھی، جس کے نتیجے میں سیاہ زہریلے دھویں کے بادل شہر کے اوپر بلند ہوتے ہوئے نظر آئے جب کہ بندرگاہ کے کئی حصوں کو آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا تھا۔
لبنانی فوج نے کہا ہے کہ بندرگار کے فری زون میں واقع تیل اور ٹائروں کے گوداموں میں آگ بھڑک اٹھی اور فوج آگ کو بجھانے کی کوششوں میں شامل ہے۔
بعد ازاں انٹرنیشنل کمیٹی آف دا ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کا کہنا تھا کہ آگ ان گوداموں میں لگی جن میں سے ایک میں امدادی تنظیم کے خوراک کے ہزاروں پارسل اور پانچ لاکھ لیٹر خوردنی تیل سٹور کیا گیا تھا، جن کا جل کر تباہ ہونے کا اندیشہ ہے اور اس سے ممکنہ طور پر ان کی امدادی سرگرمیوں کا آپریشن متاثر ہو سکتا ہے۔
فوجی ہیلی کاپٹر آگ بھجانے کے لیے متاثرہ علاقے پر پانی پھینکتے رہے جبکہ 100 سے زیادہ فائر فائٹرز، سول ڈیفنس کے ارکان اور فوجی جوان آگ پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔
آس پاس کے علاقوں میں خوف زدہ شہری بچوں سمیت اپنی گاڑیوں میں سوار ہو گئے، جن کا کہنا تھا کہ وہ دارالحکومت سے باہر نکل جانا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بندرگاہ سے صرف چند سو میٹر کے فاصلے پر رہنے والی 72 سالہ ایملی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’حکام نے ہمیں بتایا کہ بندرگاہ کو محفوظ بنا دیا گیا ہے اور یہ کہ بحالی کا عمل ٹھیک ظرح سے چل رہا ہے۔ انہوں نے پھر ہم سے جھوٹ بولا۔‘
4 اگست کے دھماکے کے دوران ان کے فلیٹ کی عمارت جزوی طور پر منہدم ہوگئی تھی۔ وہ جمعرات کو بچا کھچا سامان جمع کرنے کے لیے اس علاقے میں واپس آئی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’میں خوش قسمت تھی کہ جب دھماکہ ہوا تو میں اس وقت اپنے فلیٹ میں نہیں تھی ورنہ میں مر چکی ہوتی اور اب جب میں دوبارہ آئی ہوں تو یہاں ایک بار پھر آگ لگی ہوئی ہے۔‘
اس سے قبل دوپہر کے وقت بندرگاہ کے ملازمین کو وہاں سے بھاگتے ہوئے دیکھا گیا جو چیخ رہے تھے کہ یہ پھٹ سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس دوران عالمی تنظیم ’گرین پیس‘ نے دارالحکومت کے رہائشیوں کو خبردار کیا کہ وہ آگ سے اٹھنے والے 'زہریلے' دھویں سے بچیں۔
ماحولیاتی مہم چلانے والی اس تنظیم نے بتایا: ’ٹائر جلنے سے بہت سارے باریک اجزا، سیاہ دھواں اور راکھ پیدا ہوتی ہے جب کہ اس سے بہت زیادہ خطرناک نامیاتی آلودگی بھی جنم لیتی ہے جو دھویں کے مقام سے دور افراد سانس کے ذریعے اپنے اندر لے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’اس دھویں میں انتہائی زہریلے اور سرطان کا باعث بننے والے مرکبات، سیاہ کاربن، دیگر ذرات اور تیزابیت والی گیسیں شامل ہوسکتی ہیں۔‘
دوسری جانب خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ بندرگاہ پر آگ لگنے کی وجہ کیا تھی۔
بندرگاہ کے ڈائریکٹر بسم القیسی کا کہنا تھا کہ آگ ایک گودام سے شروع ہوئی جس میں خوردنی تیل کے بیرل رکھے گئے تھے اور بعد میں یہ آگ مزید گوداموں تک پھیل گئی جہاں ٹائروں کے ڈھیر جمع تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا آگ لگنے کی وجہ گرمی یا کسی اور غلطی کا نتیجہ ہے۔
4 اگست کو بیروت میں ہونے والے خوفناک دھماکے میں اب تک 190 افراد کی ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 6000 سے زائد افراد زخمی اور سینکڑوں لاپتہ ہو گئے تھے۔
اے پی کے مطابق بیروت کے پورٹ پر رکھے گئے تقریباً تین ہزار ٹن امونیم نائٹریٹ کی موجودگی کی وجہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکی تاہم ایسی دستاویزات سامنے آئی ہیں، جن کے مطابق لبنان کے صدر سمیت سکیورٹی حکام اس کیمیکل کی وہاں موجودگی سے واقف تھے۔