بھارت میں 40 لاکھ سے زائد کرونا (کورونا) وائرس کے کیسز ہیں جبکہ شمالی سرحد پر چین کے ساتھ تنازع بھی جاری ہے تاہم ٹی وی کی سرخیوں میں ایک ہی خبر کا راج ہے اور وہ یہ ہے کہ کیسے ایک بالی وڈ اداکارہ نے مبینہ طور پر اپنے سابق بوائے فرینڈ کو کالے جادو اور منشیات کے ذریعے خودکشی کے دہانے تک پہنچا دیا۔
وبا کی وجہ سے بظاہر ایک نہ ختم ہونے والے لاک ڈاؤن اور گرتی معیشت کا سامنا کرنے والے بھارت میں شہریوں نے گذشتہ کچھ ماہ فلم سٹار سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد ہونے والی پیش رفت کو فالو کرتے ہوئے گزارا ہے۔
رپوٹروں کی جانب سے سوشانت کی خودکشی کے طریقے کی نقل کر کے دکھانے سے لے کر پرائم ٹائم اینکرز کی جانب سے ان کی مسکراتے ہوئے تصاویر کو ڈپریشن نہ ہونے کے 'ثبوت' کے طور پر پیش کرنے تک، اس معاملے سے جڑی کسی بھی بات کو غیر ضروری یا نا شائستہ نہیں سمجھا گیا۔
دوسری جانب ان کی سابقہ گرل فرینڈ اداکارہ ریا چکرورتی کو میڈیا میں ایک آئس کوئین اور پیسے کی لالچی خاتون کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ سوشانت کے اہل خانہ نے بھی انہیں سوشانت کی خودکشی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
سوشانت کی خودکشی کی تحقیقات اب بھارت کی ٹاپ اینٹی کرائم ایجنسی کر رہی ہے اور منگل کو ریا چکرورتی کو مبینہ طور پر سوشانت کے لیے کینابس (منشیات) خریدنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
بھارت کے کئی چینلوں نے اس سارے معاملے میں آگے بڑھ کر حصہ لیا ہے اور 'ری پبلک ٹی وی' کے مشہور ارناب گوسوامی جیسے اینکروں نے بھی ایسا ظاہر کیا ہے کہ جیسے ریا کے گناہ گار ہونے میں کوئی شک ہی نہیں۔
تاہم کچھ کے لیے اتنے حساس معاملے کی اتنی سنسنی خیز کوریج پریشان کن ہے۔
میڈیا تجزیہ کار گیتا سیشو نے اے ایف پی کو بتایا: 'جب بھی آپ سوچتے ہیں کہ ٹی وی چینل مزید نیچے نہیں گر سکتے، وہ ایسا کرنے کا ایک اور طریقہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔'
انہوں نے مزید کہا: 'ان کے لیے بہت آسان ہے یہ دکھاوا کرنا ہے کہ وہ انصاف کے لیے یہ سب کر رہے ہیں کیونکہ دوسرے حکومتی ادارے اپنا کام کرنے میں ناکام رہے ہیں، مگر یہ بالکل سچ نہیں۔'
میڈیا ٹرائل
بھارت کے ٹی وی میڈیا کی ٹیبلوئیڈ جیسی سنسنی خیز کوریج کرنے کی ایک تاریخ رہی ہے، خاص طور پر اگر وہ خبریں سلیبرٹیز کے بارے میں ہوں۔
2018 میں بالی وڈ سٹار سری دیوی کی دبئی کے ایک ہوٹل کے کمرے میں باتھ ٹب میں ڈوب کر حادثاتی موت کے بعد بھی ایک رپورٹر نے ایک باتھ ٹب میں خود جا کر خبر فائل کی تاکہ وہ یہ دکھا سکیں کہ سری دیوی کی موت کیسے ہوئی ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
متاثرین کے اہل خانہ کو اکثر صحافیوں کی جانب سے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو نام نہاد میڈیا ٹرائل اور جرم کے ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے بےچین ہوتے ہیں۔ یہ سب عدالتوں کو کیس سن کر سزا سنانے کا موقع ملنے سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے۔
اس بار بھی زیادہ تر کوریج کا طریقہ کار یہی رہا ہے، مگر اس نے ملک میں کئی لوگوں کو تشویش میں ڈال دیا ہے جو پہلے ہی ملک کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔
گذشتہ ہفتے جب ٹی وی اینکر ریا کی گرفتاری پر خوشی کا اظہار کررہے تھے تب ہی بھارت میں کرونا وائرس کے کیسوں کا نیا ریکارڈ قائم ہوا۔ سخت لاک ڈاؤن کے باعث اپریل اور جون کے درمیان سکڑتی معیشت کے ساتھ ساتھ بھارت اس وبا سے دنیا کا دوسرا سب سے متاثرہ ملک بن گیا۔
بڑے چینل جیسے 'ری پبلک ٹی وی' اور 'ٹائمز ناؤ' جو ظاہری طور پر غیر جانبدار ہیں، نے سوشانت کی خودکشی پر فوکس قائم رکھ کر وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو ایک بریک دی ہے۔
اپنی محنت اور ٹیلنٹ سے اپنے کیریئر میں کئی سپرہٹ فلمیں دینے والے 34 سالہ سوشانت کی موت نے پورے ملک کو ہلا دیا ہے جہاں ڈپریشن کو زیادہ تر ایسا مرض سمجھا جاتا ہے جو ناکام لوگوں کو ہوتا ہے۔
ذہنی بیماری کو اکثر چھپایا جاتا ہے یا اس سے شرم محسوس کی جاتی ہے۔
جب سوشانت کے اہل خانہ نے رپورٹروں کو بتایا کہ وہ ڈپریشن کا شکار نہیں تھے بلکہ ریا نے انہیں منشیات لینے پر مجبور کیا تو میڈیا خاص طور پر ٹی وی میڈیا اس پر یقین کرنے میں پیش پیش رہا۔
اس سب میں سیاست دان بھی پیچھے نہیں رہے۔ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے ریاست بہار میں JusticeForSushant# مہم چلا رکھی ہے جہاں ان کی پیدائش ہوئی اور جہاں اگلے ماہ انتخابات ہیں۔
'غیر منصفانہ اور نفرت آمیز'
لیکن سب اس میڈیا کوریج سے خوش نہیں۔
ریا کا اصرار رہا ہے کہ ان کا سوشانت کی خودکشی سے کوئی تعلق نہیں، پھر بھی کیمرا مینوں کی جانب سے سماجی دوری کا خیال کیے بغیر ان کا پیچھا کرنے اور بدتمیزی کرنے کی تصاویر نے کئی حلقوں میں تشویش پیدا کی ہے۔
فیمنسٹ ایکٹیوسٹ وندیتا مورارکا نے کہا: 'ہم جو یہاں دیکھ رہے ہیں وہ ایک خاتون کو مکمل طور پر ولن بنا کر پیش کیا جانا ہے۔ یہ بالکل غیر منصفانہ ہے اور خواتین سے نفرت آمیز ہے۔'
بہت سے بالی وڈ سٹار بھی ریا کی حمایت میں بول رہے ہیں، جیسے ودیا بالن جنہوں نے اس 'میڈیا سرکس' کی مذمت کی ہے اور انسٹاگرام پر جسٹس فار ریا کی مہم کے حوالے سے بھی پوسٹ کیا ہے۔
تاہم اس سنسی خیز کوریج کے کم ہونے کے آثار نہیں۔ بھارت کا میڈیا سیلف ریگولیشن کے اصولوں پر چلتا ہے اور کم ہی نیوز براڈکاسٹنگ سٹینڈرز اتھارٹی کے دائرہ کار میں آتا ہے۔
میڈیا تجزیہ کار گیتا سیشو نے کہا: 'کوئی خاص ریگولیشن نہیں۔ چینلز وہی کرتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ وبا کے باعث نوکریاں ختم ہونے سے متاثر ہونے والی ٹی وی انڈسٹری کو بڑھتے ناظرین سے فائدہ تو ہوا ہے مگر سنسی خیزی کی جانب جانے میں بھارت کے لیے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا: 'حکومت پہلی ہی میڈیا کو غیر ضروری بنا چکی ہے اور وزیراعظم بھی ایسے ہیں جو پریس کانفرنسوں پر یقین نہیں کرتے۔ اب ان نیوز چینلز کی وجہ سے عوام کا میڈیا پر بھروسہ بھی کم ہو رہا ہے۔'