پنجاب حکومت کے اعلی عہدیداروں کی پریس کانفرنس سے لاہور موٹر وے ریپ کیس میں ملزم فرار ہونے کی اطلاع دی گئی جبکہ گمان یہ کیا جارہاتھا کہ شاید وہ ملزمان کی گرفتاری کا اعلان کریں گے۔
اتنا اعلی سطح کیس میں پولیس کے چھاپہ کے دوران ملزمان فرار کیسے ہوگئے؟
انڈپینڈنٹ اردو نے یہ سوال کئی پولیس افسران سے پوچھا، ایک افسر نے معلومات نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ فراہم کیں۔
پولیس افسر کے مطابق 'پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی (پی ایف ایس اے) نے مرکزی ملزم عابد علی کا ڈین این اے ڈیٹا بیس میں میچ ہونے کی اطلاع سے تفتیشی ٹیموں کو بے خبر رکھا۔'
'اس کیس میں دو روز سے فرانزک سائنس ایجنسی کے ساتھ سی ٹی ڈی، سی آئی اے، انویسٹیگیشن پولیس، سپیشل پولیس یونٹ اور حساس ادارے تفتیش کر رہے تھے۔'
انہوں نے بتایاکہ 'پی ایف ایس اے نے خود نمائی کے لیے نمونے میچ ہونے کی اطلاع وزیر اعلی آفس کو دی۔'
'جہاں سے آئی جی پنجاب کو آگاہ کیاگیا اس دوران تمام ٹیموں کی سربراہی کرنے والے ڈی آئی جی انوسٹیگیشن شہزادہ سلطان کو بے خبر رکھاگیا۔'
پولیس افسر نے کہا کہ 'آئی جی پنجاب انعام غنی نے ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک سی ٹی ڈی کو سونپ دیا۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موٹروے پر خاتون سے زیادتی کے واقعہ کے اصل مجرموں کو 72 گھنٹے سے بھی کم وقت میں شناخت کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ واقعے کی تحقیقات سائنسی بنیادوں پر شروع کر دی گئی ہیں اور وہ ذاتی طور پر تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں۔
انہوں نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے خود متاثرہ خاتون سے ملاقات کی اور انصاف کی فراہمی کا یقین دلایا ہے۔‘ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مجرموں کے حوالے سے اطلاع فراہم کرنے والے شخص کو 25 لاکھ روپے نقد انعام کا بھی اعلان کیا ہے۔
معاملہ کی تحقیقاتی ٹیمیں جمعہ کی رات تک مشترکہ طور پر ملزمان کی گرفتاری کے لیے متحرک تھیں۔
آئی جی پنجاب کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق مرکزی ملزم عابد علی کا ایک موبائل نمبر جیو فینسنگ کے ذریعے ملا جس کی سم ملزم کے نام پر نہیں تھی۔
لیکن جائے وقوعہ پر اس کی لوکیشن مطابقت رکھتی تھی۔
عابد علی کی لوکیشن اور جیو فینسگ میں ہی اس کے ساتھی وقار الحسن کا بھی نمبر اور لوکیشن ٹریس ہوئی۔ جس کی تصدیق مقامی افراد سے بھی کی گئی۔
ان اطلاعات پر عابد کی موجودگی شیخوپورہ کے گاؤں قلعہ ستار شاہ میں ایک ڈیرے پر ہوئی۔'
آئی جی کے مطابق یہ ڈیرہ کھیتوں میں ویران جگہ بنایاگیا تھاجہاں پر فصلیں کھڑی تھیں۔
'سی ٹی ڈی کی ٹیم جی ایس ایم لوکیٹر کی مدد سے جیسے ہی ڈیرے کی حدود میں داخل ہوئی ملزم عابد علی گاڑیوں کو آتا دیکھ کر بیوی کے ساتھ کھیتوں میں فرار ہوگیا، پولیس کو ڈیرے سے ملزم کانکاح نامہ اور بچی مل گئی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئی جی کی بریفنگ سے کئی سوالات نے جنم لیا اس اعلی سطح کیس میں انتہائی مطلوب ملزمان کی گرفتاری کے لیے متعلقہ پولیس سے علاقہ کی ناکہ بندی کیوں نہ کرائی گئی؟ نیز اس کیس پر پہلے سے کام کرنے والی دیگر ٹیموں کو آپریشن کا حصہ کیوں نہیں بنایاگیا یا چھاپہ سے پہلے متعلقہ ڈیرے کو گھیرے میں کیوں نہیں لیاگیا؟
اس بارے میں پنجاب پولیس کے ایک افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایاکہ اس کیس میں کام کرنے والی دیگر ٹیموں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ ان پر اعتماد کیوں نہیں کیاگیا؟
انہوں نے کہاکہ سی ٹی ڈی نے اپنی کارکردگی شو کرنے کے لیے خود ہی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا اور موثر حکمت عملی نہ ہونے پرملزم فرار ہوگئے۔
ان کے مطابق جب معاملہ بگڑگیا اور ملزم فرار ہوگئے تو دوبارہ پہلے والی مشترکہ ٹیموں کو ٹاسک دے دیاگیاہے۔
لیکن اب مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ٹیم اراکین میں عدم اعتماد پایاجاتاہے۔
اس بارے میں سی ٹی ڈی کے سربراہ رائے محمد طاہر سے پوچھا گیا کہ کہا جارہاہے سی ٹی ڈی نے اپنا کریڈٹ لینے کے لیے دیگر ٹیموں کو بتائے بغیر چھاپہ مارا اور ملزم فرار ہوگئے؟
انہوں نے جواب دیا کہ یہ الزام سچ نہیں ہے۔ملزمان کی گرفتاری کے لیے پوری کوشش کی جارہی ہے جلد ہی گرفتار کر لیاجائے گا۔
واضح رہے کہ اس کیس کی نوعیت حساس ہونے کے باوجود پہلے بھی معاملہ میں کئی ابہام موجود ہیں
جن میں اس مقدمے کا مدعی بھی منظر عام پر نہیں آیا نیز مدعی مقدمہ کیس سے لاتعلقی کا اظہار کرچکے ہیں۔
ایف آئی آر میں درج متاثرہ خاتون کا نام 'ثنا' ظاہر کیاگیاجب کہ میڈیکل رپورٹ میں ان کا نام صبا درج ہے۔
خاتون اور ان کے خاندان کی شناخت چھپانا بے شک معاشرتی مجبوری ہے لیکن عدالت میں اس طرح کی خامیوں سے مقدمات کے فیصلوں پر اثر پڑتا ہے۔