پاکستان کی مسلح افواج یا اس کے کسی رکن کو ارادتاً بدنام کرنے اور تمسخر کا نشانہ بنانے کو قابل سزا جرم قرار دینے کے لیے ایک بل پارلیمان کے ایوان زیریں میں جمع کرا دیا گیا ہے۔
مذکورہ بل کے ذریعے مسلح افواج یا اس کے کسی رکن کا تمسخر اڑانے والے یا بدنام کرنے والے شہری کے لیے دو سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ یہ بل حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے میانوالی سے رکن قومی اسمبلی (ایم این اے) اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین امجد علی خان نے منگل کو اسمبلی میں جمع کروایا۔
فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2020 پیش کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ایم این اے امجد علی خان نے کہا کہ اس کا مقصد مسلح افواج کے خلاف نفرت اور حقارت آمیز سلوک اور رویے کی روک تھام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلح افواج کی بدنامی کا باعث بننے والوں کے خلاف قانون کے تحت سخت اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔
تاہم پاکستان میں جمہوریت کی ترقی کے لیے کام کرنے والے تھنک ٹینک پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ آئین پاکستانعدلیہ اور مسلح افواج کو سکینڈلائز کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2020 میں مسلح افواج یا اس کے کسی رکن کو ارادتاً بدنام کرنے یا تمسخر کا نشانہ بنانے کے لیے دو سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا مقرر کرنے کی تجویز ہے۔
اس ترمیم میں تعزیرات پاکستان یعنی پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) اور کریمینل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) میں 500 اے کے نام سے اضافی شق داخل کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
تعزیرات پاکستان 1860 میں تجویز کردہ شق 500 اے کے الفاظ کچھ یوں ہیں: 'جو کوئی بھی پاکستان کی مسلح افواج یا اس کے کسی رکن کا اردتاً تمسخر اڑاتا ہے، یا وقار کو گزند پہنچاتا ہے، یا بدنام کرتا ہے، وہ ایسے جرم کا قصور وار ہو گا، جس کے لیے اتنی مدت کے لیے سزائے قید جو دو سال تک ہو سکتی ہے یا مع جرمانہ جو پانچ لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔'
اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ ترمیمی بل ایم این اے امجد علی خان نے پرائیویٹ ممبرز ڈے پر اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے ذریعہ جمع کروایا۔ پرائیویٹ ممبرز ڈے پر جمع کی گئی تجاویز سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ پیش کرنے والے رکن پارلیمان کو اس بل کی حد تک ان کی جماعت کی حمایت حاصل نہیں۔ اکثر اراکین حکومت کو کسی مسئلے کی جانب متوجہ کرنے کے لیے پرائیویٹ ممبرز ڈے پر بل اور قراردادیں ایوان میں پیش کرتے ہیں۔
تھنک ٹینک پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے مسلح افواج سے متعلق ترمیمی بل پیش کیے جانے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: '1973 کے آئین میں پہلے سے مسلح افواج کی تکریم سے متعلق آرٹیکلز موجود ہیں، اس ترمیمی بل کے پیش کیے جانے کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی۔'
انہوں نے کہا کہ وہ فوری طور پر اس آئیڈیا سے متفق نہیں ہو پا رہے کہ مسلح افواج کے احترام اور تکریم سے متعلق سزاوں پر مبنی قانون بنایا جائے۔ 'مسلح افواج کے علاوہ پولیس، رینجرز اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی اپنا خون بہاتے ہیں، ان کے تمسخر اور بدنامی کی روک تھام کا اہتمام بھی کیا جانا چاہیے۔ حتی کہ ہمارے ہاں ایسے بیانات بھی دیکھنے میں آتے ہیں جن سے پولیو ورکرز کی زندگیاں خطرات میں پڑ جاتی ہیں۔ تو ان کے لیے بھی قانون سازی ہونا چاہیے۔'
احمد بلال کا خیال تھا کہ کسی بھی ادارے کی پالیسیوں پر بحث کرنا اور اس ادارے کے خلاف سکینڈل بنانا دو مختلف چیزیں ہیں اور ان میں فرق رکھنا بہت ضروری ہے۔ 'کسی ادارے کی پالیسیوں پر بحث یا تنقید کرنا اسے بدنام کرنے کے کسی طور بھی مترادف نہیں۔'
پلڈاٹ کے سربراہ کا خیال تھا کہ پاکستان تحریک انصاف میں امجد علی خان کے بل کو پذیرائی ملنا مشکل ہو گی اور حزب اختلاف بھی شاید اس کی حمایت نہ کرے۔ 'اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ترمیمی بل پارلیمان میں منظور نہیں ہو سکے گا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امجد علی خان کون ہیں؟
2018 کے عام انتخابات میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ضلع میانوالی سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان سابق وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی (مرحوم) کے صاحب زادے ہیں۔ ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی آئینی امور کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ ان کے متعلق عام طور پر کہا جاتا تھا کہ انہیں 1973 کے آئین کی شقیں اور مضامین جیسے زبانی یاد ہیں۔
ڈاکٹر شیر افگن 2002 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرینز) کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی کی حیثیت سے چوتھی بار منتخب ہوئے تھے۔ تاہم بعد میں انہوں نے پی پی پی (پیٹریاٹ) بننے کے لیے وفاداری کو تبدیل کیا اور پھر پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کی۔
شیر افگن نیازی نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو 2007 میں سپریم کورٹ کے ججوں کو نکالنے اور نظربند کرنے کے علاوہ اسلام آباد میں لال مسجد میں فوجی آپریشن کی حمایت کی تھی۔ وہ صدر پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کا بھی حصہ رہے۔ تاہم بعد میں انہوں نے قیادت سے اختلافات کے باعث اپنے راستے الگ کر دیے تھے۔
انہوں نے ملتان کے نشتر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انہوں نے 2012 میں جگر کے سرطان کے باعث وفات پائی۔ ان کے جنازہ کو میانوالی کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ قرار دیا جاتا ہے۔