ضلع خیبر میں ایک مسلمان خاندان سکھوں کے شمشان گھاٹ کی حفاظت اور رکھوالی کرکے بین المذاہب ہم آہنگی کا عملی نمونہ پیش کر رہا ہے۔
خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے متصل ضلع خیبر میں عیسائی، ہندو اور سکھ صدیوں سے آ باد ہیں۔ خصوصاً تحصیل باڑہ کے علاقوں وادی تیراہ، منڈی کس اور کلنگہ کے علاقے میں سکھوں کے کئی خاندان کئی سالوں سے رہائش پذیر تھے، تاہم جب اس علاقے میں امن و امان کی صورت حال خراب ہوگئی تو سکھ اپنا گھر بار چھوڑ کر خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں منتقل ہوگئے۔
کچھ نے اپنے مکانوں کو فروخت کیا جبکہ کچھ اپنا گھر بار خالی چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ سکھ باڑہ کے علاقے کلنگہ میں 22 کنال پر مشتمل قلعہ نما شمشان گھاٹ کو بھی چھوڑ گئے جہاں وہ مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کرتے تھے۔ اب اس شمشان گھاٹ میں باڑہ کا مقامی مسلم خاندان گذشتہ آٹھ سال سے رہائش پذیر ہے۔
ضلع خیبر کی وادی تیراہ سے تعلق رکھنے والے مزمل شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب تیراہ میں حالات خراب ہوئے تو ان کے چچازاد نے باڑہ سے نقل مکانی کی اور جگہ نہ ملنے پر کلنگہ شمشان گھاٹ، جو خالی پڑا تھا، میں رہنے کے لیے سکھوں سے اجازت لی، جس کے بعد آٹھ سال سے ان کا خاندان اس شمشان گھاٹ میں رہائش پذیر ہے۔
مزمل شاہ نے بتایا کہ پہلے وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے، لیکن اب بغیر کرائے کہ شمشان گھاٹ میں اپنے بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شمشان گھاٹ قلعے میں ایک برآمدے سمیت چار کمرے ہیں، جس میں دو باہر جبکہ دو مرکزی احاطے میں بنائے گئے ہیں، جہاں ہم نے اپنا سامان رکھا ہے جبکہ باہر کے کمروں میں رہائش رکھی ہے۔
مزمل شاہ نے بتایا کہ 'شمشان گھاٹ میں سکھوں کی رسومات کی ادائیگی میں استعمال ہونے والی لکڑیوں کو ہم نے محفوظ کرلیا ہے کیونکہ یہ ایک امانت ہے جس میں خیانت جائز نہیں جبکہ یہاں درخت اور پودے بھی لگائے ہیں اور صفائی اور دیکھ بھال بھی کر رہے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ سکھوں نے آج تک ان سے کرایہ لیا ہے اور نہ کبھی اس کا مطالبہ کیا ہے، لیکن اگر کسی جگہ پر رہ رہے ہیں تو ضروری ہے کہ اس کا خیال بھی رکھا جائے۔
'ہم اپنی استطاعت کے مطابق اس کا خیال رکھ رہے ہیں کیونکہ ہم یہاں عزت کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ہم نے شمشان گھاٹ کو ایک نہ ایک دن ویسے بھی چھوڑنا ہے، سکھ جب بھی آنا چاہیں، یہ ان کی اپنی ملکیت ہے۔'
مزمل شاہ نے بتایا کہ اس شمشان گھاٹ کے آس پاس زیادہ تر مکان سکھوں کے تھے جو حالات خراب ہونے کے باعث یہ جگہ چھوڑ گئے، جہاں مسلمان بغیر معاوضے کے رہائش پذیر ہیں۔
سکھ کیا کہتے ہیں؟
خیبر سے تعلق رکھنے والے مہتاب سنگھ باڑہ بازار میں کریانے کی دکان چلاتے ہیں، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'جب یہاں کے حالات خراب ہوئے تو 2009 کے بعد علاقہ چھوڑ کر مجھ سمیت سب سکھ پشاور منتقل ہوگئے۔ میں پشاور میں رہتا ہوں، آج بھی باڑہ بازار میں میری دکان ہے، جہاں میں پشاور سے آتا جاتا ہوں۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'باڑہ کے علاقے کلنگہ میں ہمارا شمشان گھاٹ موجود ہے، جسے ہم نے ایک مقامی شخص کو بغیر کسی کرائے کے رہنے کے لیے دیا اور وہ بڑے اچھے طریقے سے شمشان گھاٹ کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ہم ان سے بہت خوش ہیں۔'
مہتاب نے امید ظاہر کی کہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس شمشان گھاٹ کو ایک بار پھر سے آباد کریں۔ ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ وہاں پانی اور بجلی کا بندوبست کیا جائے اور مزید پودے لگائے جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مہتاب سنگھ نے مزید بتایا کہ 'یہ شمشان گھاٹ ہمارے لیے بہت نزدیک پڑتا ہے لیکن اس وقت باڑہ کے حالات ٹھیک نہیں تھے تو اس وجہ سے علاقہ چھوڑ کر اٹک میں ایک جگہ بنالی ہے جہاں پر مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'مسلمان بھائیوں کے ساتھ پہلے بھی ہمارا بڑا اچھا وقت گزرا اور اب بھی اچھے طریقے سے گزرتا ہے۔ شکر ہے آج تک ایک دوسرے کے ساتھ کسی قسم کا کوئی مسئلہ یا تنازع نہیں ہوا۔ اب بھی ہم مسلمانوں کے ساتھ بھائیوں جیسا وقت گزارتے ہیں، میری خواہش ہے کہ دوبارہ اپنے علاقے واپس جاؤں کیونکہ میرے والد اور دیگر رشتہ داروں کی آخری رسومات کلنگہ کے شمشان گھاٹ میں ادا ہوئی ہیں۔'
مہتاب کا کہنا تھا کہ 'بہت سے سکھ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں کلنگہ سمیت دیگر علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ ہمارا ملک ہے اور ہمارا شناختی کارڈ بھی اس ضلع کا بنا ہوا ہے۔'