روزانہ 200 بیٹھکیں لگانے والے نئے جاپانی وزیراعظم 'انکل ریوا'

سیاست ہی یوشی ہیڈے سوگا کی زندگی ہے، وہ پورے دن میں اتنا زیادہ کام کرتے ہیں کہ ایک عام جاپانی ملازمت پیشہ شخص کو بھی شرمندہ کر دیں۔

نئے وزیر اعظم شمالی جاپان کے علاقے اکیتا میں 1948 میں سٹرابیری کے کاشتکار ایک عام خاندان میں پیدا ہوئے (اے ایف پی)

دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے رہنما اب تک جاپان میں بھی غیرمعروف تھے۔ جاپان کے نئے وزیراعظم یوشی ہیڈے سوگا کام کرتے ہوئے چیف کابینہ سیکریٹری کے اثرورسوخ والے عہدے پر پہنچے۔ کابینہ سیکرٹری ایک طرح سے نائب وزیراعظم اور چیف آف سٹاف کا ملا جلا عہدہ ہے جو زیادہ تر گمنام اور میڈیا میں اپنی کی کوئی پہچان کروانے میں ناکام ہے۔

صورت حال یکم اپریل 2019 کو ڈرامائی طور پر تبدیل ہو کر سوگا کے حق میں ہوگئی۔ وہ کابینہ سیکریٹری کی حیثیت سے ٹیلی ویژن پر براہ راست عوام کے سامنے آئے۔ جاپان کے نئے'دور' کے لیے سرکاری سطح پر ایک نام کا انتخاب کیا گیا۔ یہ عمل جاپانی ولی عہد ناروہیٹو کی تخت نشینی سے شروع ہوا۔

سوگا نے اعلان کیا کہ نئے دور (جاپانی کلینڈر کے موجودہ دور) کا نام 'ریوا' ہوگا ۔ اس موقعے پر انہوں نے خطاطی سے آراستہ ایک تختہ اٹھا رکھا تھا جس پر 'خوبصورت ہم آہنگی' کے الفاظ درج تھے۔ سابق وزیراعظم شنزوآبے کے اتحادی یوشی ہیڈے سوگا نے پارٹی کی قیادت کا انتخاب جیت کر جاپان کا نیا وزیراعظم بننے کا فیصلہ کیا۔ تب سے اب تک 'انکل ریوا' کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے یوشی ہیڈے سوگا جاپان میں ایک گھریلو شخصیت تھے۔

اس وقت بھی بہت کم لوگوں کو توقع تھی کہ 71 سالہ یوشی ہیڈے سوگا، شنزوآبے کی جگہ سیاست میں غالب جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کی قیادت سنبھال لیں گے۔ شنزوآبے نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ صحت کے مسائل کی وجہ سے عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔

سوگا ایل ڈی پی میں کسی طاقتور دھڑے سے وابستہ نہیں ہیں جو دوسری عالمی جنگ کے بعد ہر ایک سال نہیں بلکہ چار سالہ مدت میں جاپانی حکومت کو کنٹرول کرتی چلا آ رہا ہے۔ ایل ڈی پی میں سوگا کے زیادہ پہچان والے حریف مطلوبہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے جس سے 71 سالہ سوگا کی اس ہفتے ہونے والے قیادت کے انتخاب میں فتح کی راہ بن گئی۔

اگرچہ وہ گمنامی سے اقتدار میں آئے ہیں لیکن یہ کہنا غلط ہو گا کہ انہوں نے کوئی نشان نہیں چھوڑا۔ شنزوآبے جاپان کو دودہائیوں سے جاری معاشی سست روی سے نکالنے کے لیے گذشتہ آٹھ برس سے کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔ انہوں نے مالی سرگرمیوں میں تیزی، سرکاری سطح پر زیادہ اخراجات اور تنظیم نو کا انقلابی پروگرام شروع کیا۔ سوگا اس پورے عرصے میں آبے کے دست راست رہے ہیں۔

بہت سے جاپانی سیاست دانوں کے برعکس (آبے بھی ان میں شامل ہیں) سوگا کا تعلق کسی سیاسی خانوادے سے نہیں۔ وہ شمالی جاپان کے علاقے اکیتا میں 1948 میں سٹرابیری کے کاشتکار ایک عام خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ سکول میں ایک عام سے طالب علم تھے۔ خاندان کے پاس رقم نہ ہونے مطلب یہ تھا کہ انہیں ٹوکیو کی ہوسئی یونیورسٹی میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے 1973 میں گریجویشن کی۔

ان کی پہلی سیاسی ملازمت یوکوہاما سے تعلق رکھنے والے ایل ڈی پی پارلیمنٹیرین کے سیاسی مشیر کی تھی۔ یوکوہاما جاپان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ ایک دہائی بعد جب وہ 39 سال کے تھے تو وہ یوکوہاما سٹی کونسل کے لیے منتخب ہوئے جہاں انہوں نے نو سال اس وقت تک خدمات فراہم کیں جب وہ 1996 میں ایوان نمائندگان میں منتخب ہو گئے۔

وہ پہلی بار 2005 میں وزیر بنائے گئے جب سابق ایل ڈی پی وزیر اعظم جونی چیرو کوئیزومی نے انہیں داخلہ امور اور مواصلات کا وزیر تعینات کیا۔ ایبے نے 2006 میں بطور ایل ڈی پی رہنما کوئیزومی کی جگہ لی لیکن ان کی دائمی بیماری اور بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت نے ایک سال بعد ہی انہیں یہ عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ سوگا اس مایوس دور میں ایبے کے وفادار تھے۔

انہوں نے ایبے کو مشورہ دیا کہ وہ 2012 میں دوبارہ ایل ڈی پی کی قیادت کے لیے میدان میں اتریں۔ جب ایبے نے دوسری بار حکومت بنائی تو سوگا کو وفاقی کابینہ میں سیکرٹری کے عہدے سے نوازا گیا۔ یہ ایک تاریخی اور پائیدار سیاسی شراکت داری رہی ہے۔ ایبے جاپان کے طویل ترین دورانیے تک وزیر اعظم رہے ہیں جبکہ سوگا طویل ترین دورانیے تک کابینہ سیکریٹری۔ تجزیہ کار ایک شخصیت کے بارے میں جاپان کی بیورو کریسی کو چلانے کی مہارت کی بات کرتے ہیں۔ ان کی بائیوگرافی کا نام بھی شیڈو پاور رکھا گیا ہے۔

سوگا کی حکومت سے رخصت لینے والے ایبے سے قربت ان کی 'ایبے نامکس' اصلاحات کے حوالے سے جاری رہے گی، جس میں بینک آف جاپان کو مضبوط معاشی خطوط پر قائم رکھنا بھی شامل ہے۔ وہ اپنے پیش رو کے جاپان کے امن پسند آئین میں ترمیم کرنے کی خواہش کو بھی ورثے میں پائیں گے اور جاپان کی ایک دفاعی فوج رکھنے کو قانونی شکل دیں گے۔ لیکن اس کے باوجود سوگا نے جس طرح ایبے کی معاشی اصلاحات کے حوالے سے مدد کی اور انہیں اپنے قوم پرست ایجنڈے سے دور رکھا، اس بات کا امکان نہیں کہ وہ اسے اپنی ترجیح قرار دیں گے۔

جب ایبے ایک جانب دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی بربریت کی حقیقت کو 'بدلنے' کی کوشش کر رہے تھے تو سوگا کے بیانات میں ایسا کچھ نہیں ہے جو دائیں بازو کے جذبات کو طمانچہ رسید کر سکے، گو کہ کچھ لوگوں کو شک ہے کہ وہ فری مارکیٹ کو ڈی ریگولرائز کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ (جاپانی معیارات میں یہی بہت ہوگا۔)

سوگا کو ملنے والا معاشی ورثہ ایبے کو ملنے والے ورثے سے بھی بدتر ہے۔ انہیں کووڈ 19 کے اثرات سے نمٹنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کے مطابق رواں سال جاپان کی معیشت وبا کے نتیجے میں چھ فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔

ان کا ملک بھرپور کوششوں کے باوجود گذشتہ دہائی کی معاشی گراوٹ سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شرح نمو میں کچھ خاص اضافہ نہیں ہو رہا اور جاپانی شہریوں کی عمر بڑھ رہی ہے جبکہ شرح پیدائش دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ ان کو ملنے والی جیوپولیٹکل وراثت بھی تاریکی سے بھری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ ایک غیر یقینی فوجی پاسبان بن چکا ہے جبکہ چین پیسفک کے علاقے میں زیادہ با اختیار ہو چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جاپان میں اگلے انتخابات خزاں 2021 سے پہلے ہونا ضروری ہیں۔ اس وقت سوگا کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ مقبولیت حاصل کر کے اپنا مینڈیٹ حاصل کرتے ہیں یا سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ خود کو تاریخ میں ایک نگران وزیر اعظم سے کچھ زیادہ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اگلے ایک سال میں خود کو لیڈر ثابت کرنا ہو گا۔

ایک اور راستہ رواں ماہ میں قبل از وقت انتخابات کا ہو سکتا ہے لیکن سوگا جیسے تجربہ کار سیاست دان کے لیے ایک وبا کے دوران عوام سے ووٹ ڈالنے کا کہنے اور معاشی نقصان کی صورت حال بہت یقینی ہو گی۔ ان کی عمر بھی کامیابی میں ایک رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ سوگا ایبے سے چھ سال بڑے ہیں۔ لیکن رپورٹ کیا جاتا ہے وہ روز 200 بار اٹھک بیٹھک کرتے ہیں اور شراب سے پرہیز کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی صحت بہتر اور وہ طاقتور ہیں۔

سیاست ہی ان کی زندگی ہے اور وہ اتنا زیادہ کام کرتے ہیں کہ ان کے کام کا طویل دورانیہ ایک جاپانی ملازمت پیشہ شخص کو بھی شرمندہ کر دیں۔ وہ اور ان کی اہلیہ ماریکو تین بیٹوں کے والدین ہیں۔ ایک حالیہ بحث میں انہوں نے تسلیم کیاکہ وہ زیادہ تر ایک غیر حاضر والد رہے ہیں۔

بطور طاقت اور اختیار رکھنے والے شخص کے لیے یہ اچھی خوبی ہے لیکن کیا پس منظر سے طاقت سنبھالنے والا شخص سب کے سامنے بھی ایسا کر سکتا ہے؟ یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ شخص جس نے جاپان کے لیے نئے دور کا اعلان کیا ہے کیا وہ اس کی تعمیر میں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا