ڈپارٹمنٹل کرکٹ سسٹم کے خاتمے کے بعد سے اب تک اس سسٹم کے حمایتی مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں کہ کسی طرح پرانا سسٹم دوبارہ بحال ہوجائے اور کھلاڑیوں کو کرکٹ کی بنا پر ملی ہوئی نوکریاں باقی رہیں۔
اسی تگ و دو میں موجودہ کوچ مصباح الحق، ٹیسٹ کپتان اظہر علی اور سینیئیر کرکٹر محمد حفیظ نے سابق کرکٹر وسیم اکرم، پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین احسان مانی اور پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان کے ہمراہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں ان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو دوبارہ بحال کردیا جائے لیکن ان کی یہ محنت کام نہ آسکی اور وزیراعظم نے ملاقاتیوں کا موقف سرے سے ماننے سے انکار کردیا۔
وزیر اعظم عمران خان اپنے شاندار کرکٹ کیریئر کو مثال بناتے ہوئے ہمیشہ اس موقف کے حامی رہے ہیں کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کرکے کرکٹ علاقائی بنیادوں پر ہونی چاہیے کیونکہ اس طرح نئے ٹیلنٹ کو موقع ملتا ہے اور کرکٹ کے دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس سلسلے میں وہ ہمیشہ آسٹریلیا کے کرکٹ نظام کی مثال دیتے ہیں۔
آسٹریلین نظام آخر کیا ہے؟
آسٹریلیا کا کرکٹ نظام اس کی چھ ریاستوں میں تقسیم ہے۔ یہ چھ ریاستیں اپنی کرکٹ ٹیم تشکیل دیتی ہیں جو فرسٹ کلاس کرکٹ مقابلے 'شیفیلڈ شیلڈ' میں حصہ لیتی ہیں جبکہ اسی طرح ایک روزہ مقابلے بھی ہوتے ہیں۔
تمام ریاستیں تقریباً ڈیڑھ سو سال سے ایک بنیادی کرکٹ نظام سے منسلک ہیں۔ اس بنیادی نظام میں کرکٹ کلبز ہیں اور اکیڈمیز ہیں۔ ان کلبز کو سپانسر شپ اور ممبر شپ سے آمدنی ہوتی ہے، جس سے کرکٹرز کو کھیلنے کے پیسے ملتے ہیں جبکہ کارکردگی کی بنیاد پر ریاستی ٹیم میں کھلاڑی منتخب ہوتے ہیں۔
کھلاڑیوں کو ابتدائی عمر میں ہی بہترین کھیل کی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ حکومت سپورٹس بورڈ کو گرانٹ دیتی ہے جو ملک میں بہترین کرکٹ گراؤنڈز بناتے ہیں۔
پاکستان کا نظام
پاکستان میں عوام کی بڑی اکثریت کی مالی حالت کمزور ہونے کے باعث کلبز اور علاقائی ٹیموں میں نہ تو ان کی دلچسپی ہے اور نہ ہی سرمایہ کاری، جیسے کہ آسٹریلیا میں ہوتی ہے۔
یہاں کرکٹ، اخراجات کے سبب ٹیپ بال سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ ایک آسان حل تھا جو اپنے بھاری منافع میں سے کچھ کرکٹ پر خرچ کرتے تھے، جو ان کی شہرت کا سبب بنتے تھے۔
اس نظام سے ہی پاکستان کو بڑے بڑے کرکٹر ملے ہیں، جن کی سرپرستی اگر ڈپارٹمنٹ نے نہ کی ہوتی تو شاید پاکستان کرکٹ کو وہ بڑے نام نہ مل پاتے۔
ڈومیسٹک کرکٹ میں ان ڈپارٹمنٹس کی اس قدر مداخلت تھی کہ وہ ہر سیاہ و سفید کے مالک تھے جبکہ علاقائی تنظیمیں برائے نام تھیں۔حتیٰ کہ ریجنل ایسوسی ایشنز میں بھی ڈپارٹمنٹ کے سرکردہ افراد اہم کردار ادا کرتے تھے۔
ان ڈپارٹمنٹس کی اپنی ٹیمیں تو اچھے کھلاڑیوں پر مشتمل تھیں لیکن گراس روٹ لیول پر ان کا کوئی کردار نہ تھا۔ اکیڈمی یا جونیئر ٹیموں کا کوئی تصور نہیں تھا اور صرف ایک دو ادارے ہی کچھ کام کر رہے تھے۔
وزیر اعظم شاید ان اداروں کی بےجا مداخلت اور اجارہ داری سے نالاں تھے اور اسی لیے وہ شدت سے اس نظام کے خلاف تھے، یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی انہیں موقع ملا انہوں نے نظام بدل دیا۔
علاقائی کرکٹ میں اقربا پروری اور کرپشن
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علاقائی کرکٹ تنظیمیں ابھی تک انہی سکہ بند عہدیداروں کے ہاتھ میں ہیں جو کرکٹ کو تعلقات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ماضی میں ان علاقائی تنظیموں کے کرپشن کے کئی کیسز سامنے آئے ہیں اور ان کے انتخاب کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
حقیقی کرکٹرز کی عدم موجودگی میں ان تنظیموں کی حیثیت کسی سیاسی جماعت سے زیادہ نہیں۔
پاکستان کے تین بڑے کھلاڑیوں کو جس طرح وزیر اعظم نے یکسر انکار کردیا ہے، اس سے ادارہ جاتی کرکٹ کی بحالی کے امکانات اب صفر ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ پاکستان کرکٹ بورڈ ایک آزاد آئینی ادارہ ہے اور اس کے فیصلے گورننگ بورڈ میں ہونے چاہییں لیکن وزیر اعظم کی براہ راست مداخلت اور مسلط فیصلوں نے بورڈ کی آزادانہ حیثیت کو بالکل ختم کردیا ہے۔ وزیراعظم کے اس عمل کو کسی بھی سطح پر پذیرائی نہیں مل سکے گی، ماسوا بورڈ میں بیٹھے ایک دو خوشامدی افراد کے۔
علاقائی کرکٹ میں آسٹریلیا کی تقلید ایک احسن قدم ہے لیکن کیا آسٹریلیا کی طرح گراس روٹ لیول پر بھی کوئی کام ہوگا؟ کیا کرکٹ کے معیاری گراؤنڈز بنائے جائیں گے اور ان میں پسماندہ آبادیوں کے کھلاڑی بھی کبھی کھیل سکیں گے؟ یہ تمام سوالات جواب طلب ہیں۔
ماضی میں اسکول اور کالج کرکٹ ایک نرسری کا کام کرتی تھی لیکن جیسے جیسے تعلیم نجی سکولوں کے ہاتھ میں گئی، کھیلوں کے مقابلے ختم ہوگئے۔
اگر وزیر اعظم علاقائی کرکٹ کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو انہیں کلب کرکٹ کو مضبوط کرنا ہوگا۔ کلب کرکٹ سے ہی نیا ٹیلنٹ سامنے آتا ہے۔ اس کے ساتھ چھ ریجنل تنظیموں میں سابق کرکٹرز کو لانا ہوگا، جو ٹیلنٹ کو تلاش بھی کریں اور گروم بھی کریں۔ جبکہ سیاسی شخصیات اور کرکٹ سے نابلد لوگوں پر ان تنظیموں میں پابندی ہونی چاہیے۔
کھلاڑیوں کے بیروزگار ہونے پر بورڈ نے ماہانہ تنخواہوں کا ایک سسٹم بنایا ہے جو خوش آئند ہے لیکن بورڈ کو سوچنا ہوگا کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کو ایک دائرے میں لاسکیں اور ان کی تنخواہیں کارکردگی سے مشروط ہوں تاکہ سفارشی کھلاڑیوں کا داخلہ بند کیا جاسکے۔
کرکٹ کی تنظیم اور ترقی میں کون سا نظام کامیاب ہوگا، یہ تو ابھی نہیں کہا جاسکتا لیکن علاقائی کرکٹ اسی صورت میں کامیاب ہوگی اگر مینیجمنٹ دیانتداری کے ساتھ کام کرے اور مستحق کھلاڑیوں کو موقع دے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ نظام بھی پچھلے نظام کی طرح چند مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں رہے گا اور کرکٹ کے ہزاروں باصلاحیت کھلاڑی اقربا پروری کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔