آج کل ففتھ جنریشن یا ہائبرڈ جنگ کا بڑا چرچا ہے۔ ہر کوئی اس کے حوالے دے کر قومی مفادات کے تحفظ کی درخواستیں کرتا پھر رہا ہے۔
سننے میں یہ بڑا گہرا لیکن اصل میں زمانہ قدیم سے رائج ایک تصور ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جھوٹ اور سچ کو ملا کر لوگوں کو بطور دوا پلا دیا جاتا ہے۔ وہ اس کے اثر کے تحت اپنے ہوش کھو بیٹھتے ہیں۔ نہ اچھے کی تمیز رہتی ہے نہ برے کی۔ پھر الٹی سیدھی معلومات کو حقیقت جان کر دست گریبان بھی ہو جاتے ہیں جس سے فساد پھیلتا ہے اور قوم کی توانائیاں تعمیری کاموں میں لگنے کی بجائے مارا ماری میں ضائع ہوتی ہیں۔
اس کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کی روایت بھی اتنی ہی پرانی ہے۔ چنگیز خان اپنی افواج کے حملوں سے پہلے منادی کروانے والوں کو بھجوایا کرتا تھا کہ ایک لشکر عظیم اس ملک کو برباد کرنے کے لیے آ رہا ہے بھاگ جاؤ۔ خوف کی اس فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چنگیز خان بعض علاقوں میں لڑے بغیر جنگ جیت جاتا تھا۔
ہمارے ہاں تو اس طرح کے داؤ پیچ بالکل بھی نئے نہیں ہیں۔ آزادی حاصل کرنے کے فورا بعد اس قوم کو گمراہ کرنے کے جو کھیل یہاں پر کھیلے گئے اس کے تحت تو ففتھ جنریشن وار فیئر کا بانی ہمیں ہی قرار دینا چاہیے، یہ روایت آج کل پاکستان میں عروج پر ہے۔ جہاں پر گنگا بہتی ہے اس کو الٹا دیا جاتا ہے۔ سر کے بل کھڑے شخص کو سیانا اور پیروں پر تکیہ کیے ہوئے کو بیوقوف ثابت کیا جاتا ہے۔
اعداد و شمار کا ایسا گورکھ دھندہ ہے کہ عوام ذہنی کوفت سے نجات کے لیے ہر حماقت کو بعض اوقات مانے بغیر ہضم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ حقائق کو جاننے کے لیے مغز ماری کرتا پھرے۔ خالی پیٹ سوچ کو بانجھ کر دیتا ہے اور جب ہر طرف شور و غوغا کان کے پردے پھاڑ رہا ہو تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ویسے ہی ماؤف ہو جاتی ہے۔
ہر پروپیگنڈے کا بنیادی مسئلہ وہ حقائق ہیں جو عوام میں پزیرائی نہ پانے کے باوجود چٹانوں کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں، نہ غائب ہوتے ہیں نہ ٹوٹتے پھوٹتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پروپیگپنڈے کو بے اثر کرنے والی اگر کوئی دوا موجود ہے تو وہ مستند معلومات کے وہ سلسلے ہیں جو لغویات کی دھند میں چھپ تو جاتے ہیں مگر موجود رہتے ہیں۔ اپنی مرضی کی تشریح کرنے سے سیاہ سفید میں تبدیل نہیں ہوتا۔
پاکستان کے پارلیمنٹیرینز کے ٹیکسوں کی تفصیلات پڑھ کر آپ خود سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ جھوٹ کے کتنے قد آور مجسمے ففتھ جنریشن نفسیاتی جنگ میں تیار کر کے اس قوم کے سامنے پوجا پاٹ کے لیے رکھے گئے ہیں۔
ہمارے وسیم اکرم پلس نے پنجاب کے دس کروڑ عوام کی قسمت اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے۔ وفاقی مالیاتی وسائل کی بانٹ میں پنجاب کے وسائل سے متعلق کے فیصلے بظاہر ان کے ہاتھ سے ہوتے ہیں۔ ہر روز قوم کی ترقی کے اشتہارات میں تصویروں کے ذریعے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ درباری انٹرویو کروا کر اپنی کارکردگی پر خود ہی خوش ہوتے ہیں، سب کو قربانی کا کہتے ہیں لیکن ٹیکس ایک دھیلا نہیں دیتے۔
وزیر اعظم پاکستان بھی ہر وقت کرپشن، ٹیکس چوری اور عوامی وسائل کی لوٹ مار کی بات کرتے ہیں خود ایک 17گریڈ کے افسر سے کم ٹیکس دیتے ہیں۔ یہی حال فیصل واوڈا کا ہے۔ جو پستول پتلون پر لگا کر ٹی وی سٹوڈیوز میں جوتے کاؤنٹر پر رکھنے کی مشقت تو کرتے ہیں لیکن ٹیکس کا معاملہ آتا ہے تو کارکردگی وسیم اکرم پلس جیسی ہی نظر آتی ہے یعنی صفر۔ زرتاج گل بھی صفر۔ سینٹر فیصل جاوید اور فیاض الحسن چوہان بھی صفر۔ شاہ محمود محض ایک لاکھ 83 ہزار۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
باتیں سنو تو لگتا ہے کہ اپنے برتن بیچ کر اور پیٹ کاٹ کر پاکستان چلا رہے ہیں۔ باقی وزرا کا حصہ بھی اپنے مالیاتی جثے کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالت یہ ہے کہ خاقان عباسی 24 کروڑ روپے کے لگ بھگ ٹیکس دے کر وفاقی کابینہ کے 70فیصد اراکین، اور پنجاب اور کے پی کے وزرا اعلی، سینٹ چیئرمین اور قومی اسمبلی کے سپیکر کے اجتماعی ٹیکسوں سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں مگر پھر بھی عیاشی کی زندگی گزارنے اور قوم کو دو دو لاکھ روپے کے ٹیکسوں پر ٹرخانے والے ان کو چور کے لقب سے نوازتے ہیں۔
اب اس پر خاقان عباسی آوازیں کسنے والوں کے بزرگوں کو وہی لقب نہ دے تو کیا کرے۔ ٹیکس کی اس کتاب کی داستان اثاثوں کی داستاں سے مختلف نہیں۔ جو جتنی دو نمبری کرتا ہے وہ اتنی ہی بلند آواز میں قوم و ملک کی خدمت اور قومی اثاثوں کے تحفظ کی قسمیں کھاتا ہے، نعرے لگاتا ہے، دھونس جماتا ہے اور اس تمام سوانگ کی آڑ میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کو چونا لگاتا ہے۔
ویسے فارمولا ہے ذبردست۔ نہ ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔ پریس کانفرنس کرنے پر کون سا خرچہ آتا ہے۔ ٹوئٹس کرنے پر کون سا بل آتا ہے۔ ریاست کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے خطاب میں بڑھکیں مارنے کی کون سی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اور جب مراعات کی بارش ہر طرف سے ہو رہی ہو اور آپ کو یہ معلوم ہو کہ اولاد پاکستان کے خلفشار سے دور ٹھنڈی ہواؤں میں زندگی گزار رہی ہے تو لیکچر تیار کرنا آسان ترین کام ہے۔
دنیا بھر میں ففتھ جنریشن نفسیاتی جنگ کا بنیادی اصول ہی گمراہی پھیلانا ہے اور ہمارے ہاں تو یہ اصول اب قومی زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ ذاتی معاملات سے ہٹ کر بھی تجزیہ کریں تو یہی طریقہ کار ہر طرف راج کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ معیشت کی لٹیا ڈوب گئی لیکن بیانیہ ہے کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔
قرضے آزادی سے لے کر اب تک سب سے بلند سطح پر ہیں مگر فرماتے ہیں کہ ملک کو معاشی آزادی نصیب کر دی گئی ہے۔ اپنے منہ سے مانتے ہیں کہ ہر سال 15 لاکھ افراد معاشی حالات کی وجہ سے بے روزگاری و غربت کا شکار ہو رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ لال بجھکڑوں کے ذریعے یہ ڈھول بھی پٹواتے ہیں کہ عیدین جیسی خوش خبریوں کا آغاز ہو گیا ہے۔
سارا مال و معیشت بیرونی اداروں کے نمائندوں کے ہاتھ میں تھما دیا ہے مگر سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔ بغل میں بیٹھے مافیاز کے ہاتھوں سے تلے ہوئے پکوڑے کھاتے ہیں اور ہمیں سناتے ہیں کہ اشرافیہ کے خلاف سینہ سپر ہیں۔
کہتے ہیں پاکستان سب سے پہلے مگر اولادیں پالتے ہیں ملک سے باہر۔ ذاتی زندگیاں مغرب زدہ ہیں مگر عوام کے سر پر ہر وقت مشرقیت کا دوپٹہ جماتے رہتے ہیں۔
ہمیں ففتھ جنریشن نفسیاتی جنگ سے کیا ڈرنا؟ ہم نے تو اس کو پال پوس کر بڑا کیا ہے۔ یہ تو ہمارے گھر میں رہتی ہے، روزانہ کروڑوں عوام کو چت کرتی ہے۔ یہ تو ہماری جانی پہچانی ہے۔ یہ کسی غیر کی نہیں یہ ہماری اپنی رام کہانی ہے۔