ایک جانب اگر ملک بھر کے تاجر حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں تو دوسری جانب پنجاب کے دل لاہور میں شہریوں پر ایک نیا ٹیکس لگانے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے اور وہ ٹیکس ہے نئی قبروں پر۔
میئر لاہور کرنل (ریٹائرڈ) مبشر جاوید نے جن کا تعلق حزب اختلاف کی مسلم لیگ (ن) سے ہے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور نے پنجاب حکومت کو نئی قبروں کے حوالے سے تجویز دی ہے کہ فی تدفین ایک ہزار روپیہ ٹیکس لگایا جائے۔ ’ہم نے حکومت پنجاب کو یہ تجویز دے دی ہے۔ اب اس حوالے سے آخری فیصلہ حکومت پنجاب کا ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکس سے اکٹھی ہونے والی رقم کو قبرستانوں کی دیکھ بھال کے لیے خرچ کیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر نئی قبر پر لواحقین کو دیگر اخراجات کے علاوہ ہزار روپیہ ٹیکس بھی ادا کرنا ہوگا۔
لاہور کے شہریوں نے اس تجویز پر ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ فریدہ گھروں میں کام کاج کرتی ہیں۔ ان کے خیال میں حکومت پہلے ہی اتنی مہنگائی کر چکی کہ سانس لینا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ ’اب مرنے کے بعد بھی پچھلوں کو ہزار روپیہ مزید دینا پڑے گا تو غریب بندہ کیا کرے گا۔ ہم اپنے مردے پھر گھروں میں ہی دفنا لیں گے۔‘
محمد اکرم مزنگ کے رہائشی ہیں۔ ان کے خیال میں پہلے بھی قبر مفت میں تو نہیں بنتی تھی۔ ’پکی قبر بنوانے میں اچھا خاصہ خرچہ ہو جاتا ہے تو اس پر ایک بار ایک ہزار روپے دینا کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔‘
میئر لاہور کے مخالفین اسے سیاسی شعبدہ بازی بھی قرار دیتے ہیں۔
دوسری جانب علامہ اقبال ٹاؤن کے رہائشی ارشد اقبال کے خیال میں یہ ٹیکس بالکل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بعض لوگ تدفین کے لیے بڑی مشکل سے رقم جمع کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ اضافی خرچہ ہوگا۔ ارشد کے خیال میں تدفین کے کوئی پیسے نہیں ہونے چاہیے۔ قبریں سب کی پکی ہونی چاہییں۔ ہاں قبر کی آرائش مرنے والے کے لواحقین کی مرضی ہو اور اس پر وہ خود جتنا مرضی خرچ کرلیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاہور کے سب سے بڑے اور قدیم ترین قبرستان میانی صاحب کے ایک گورکن محمد عاشق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت میانی صاحب میں پکی قبر کے لیے لواحقین کو10 ہزار 500 روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ جس میں سے ایک ہزار روپیہ پرچی فیس ہوتی ہے جو کہ کارپوریشن کو جاتی ہے جب کہ باقی 9500 انتظامیہ انہیں دے دیتی ہے جس میں ان کی مزدوری اور مٹیریل وغیرہ شامل ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’زیادہ تر رجحان پکی قبریں بنوانے کا ہے کیونکہ پکی قبر کے ساتھ یا اندر نئی قبر نہیں بن سکتی۔‘
محمد عاشق نے بتایا کہ قبرستان میانی صاحب میں کچی قبر کا حصول ایک مشکل کام ہے۔ ’چونکہ قبرستان میں پکی قبروں کی بہتات ہے جس کی وجہ سے کچی قبر کی جگہ نہیں ملتی۔‘
کچی قبر کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کچی قبر کی پرچی فیس 250 روپے ہے جو کہ کارپوریشن کو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تین ہزار روپے ان کی مزدوری ہے جبکہ قبر کو بند کرنے کے لیے سیمنٹ کی سلیں لواحقین کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان سِلوں کی قیمت 1500 سے 3000 روپے تک ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ کچی قبر کے لیے لواحقین کو کم از کم چار ہزار روپے ادا کرنا ہوتے ہیں۔
محمد عاشق نے فی قبر نئے ٹیکس کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
تاہم مشکل معاشی صورتحال میں مبصرین کے خیال میں نیا ٹیکس لگانا لاہور کارپوریشن کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔