فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق پاکستان کی موجودہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 178 اراکین کی مالی سال 18-2017 کے دوران کوئی آمدنی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے انہوں نے کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا جبکہ 16 اراکین پارلیمان نے ایک ہزار روپے سے کم اور 26 نے ایک سے پانچ ہزار روپے کے درمیان آمدنی ٹیکس ادا کیا۔
آمدنی ٹیکس ادا نہ کرنے والوں میں وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی زرتاج گل اور وفاقی وزیر برائے آبی ذخائر محمد فیصل ووڈا بھی شامل ہیں۔ جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور سابق وفاقی وزیر صحت عامر محمود کیانی بھی ان سیاست دانوں میں شامل ہیں جن کے ذمے کوئی انکم ٹیکس نہیں بنا۔
اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کے نام بھی صفر انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی فہرست میں موجود ہیں۔ ریاست پاکستان کے لیے ٹیکس اکٹھا کرنے کا ذمہ دار ادارے ایف بی آر نے جمعے کو ایک ہزار سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے مالی سال 18-2017 کے لیے ادا کیے گئے آمدنی ٹیکسوں کی تفصیلات جاری کیں۔
اس فہرست کے مطابق سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین میں سے 178 نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ صفر انکم ٹیکس ادا کرنے والوں میں 2018 کے عام انتخابات میں منتخب ہونے والے سب سے کم عمر رکن قومی اسمبلی اور پنجاب کے معروف کھر خاندان کے چشم و چراغ رضا ربانی کھر بھی شامل ہیں۔
سب سے کم انکم ٹیکس جمع کروانے والے رکن پنجاب اسمبلی چوہدری خوش اختر سبحانی ہیں، جنہوں نے صرف 33 روپے آمدنی ٹیکس کی مد میں ایف بی آر کے پاس جمع کروائے۔ چوہدری خوش اختر واحد رکن اسمبلی ہیں جنہوں نے سو روپے سے کم انکم ٹیکس ادا کیا۔
ایف بی آر کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق آٹھ اراکین سے انکم ٹیکس کی مد میں 500 روپے سے کم کی کٹوتی کی گئی جبکہ آٹھ دوسرے اراکین نے 500 سے زیادہ لیکن ایک ہزار روپے سے کم انکم ٹیکس ادا کیا۔ یوں مجموعی طور پر 16 اراکین اسمبلی نے ایک روپے سے ایک ہزار روپے کے درمیان انکم ٹیکس کے طور پر ادا کیے۔
26 اراکین ایسے ہیں جن کے ذمے ایک سے پانچ ہزار روپے کے درمیان انکم ٹیکس بنا۔ ان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سندھ سے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل، جو اسمبلی میں اپنے جوشیلے انداز بیان کی وجہ سے کافی مشہور ہیں، بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مالی سال 18-2017 میں 4792 روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔
ایف بی آر کے اعدادو شمار کے مطابق 36 اراکین نے پانچ ہزار سے زیادہ لیکن 10 ہزار روپے سے کم انکم ٹیکس ادا کیا۔ اس گروہ میں اہم نام سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مولا بخش چانڈیو (5632 روپے) کا ہے۔ جن اراکین پارلیمان کا 10 ہزار روپے سے زیادہ اور 50 ہزار روپے سے کم انکم ٹیکس بنا ان کی تعداد 171 بنتی ہے، جبکہ 71 اراکین نے ایک لاکھ سے پانچ لاکھ روپے کے درمیان آمدنی ٹیکس ادا کیا۔
پچاس ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ٹیکس ادا کرنے والوں میں اہم نام جماعت اسلامی کے خیبر پختونخوا سے سینیٹر مشتاق احمد خان اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور پنجاب کے وزیر برائے ہاوسنگ اور شہری ترقی محمود الرشید کے ہیں، جنہوں نے بالترتیب 11280 اور 11998 روپے آمدنی ٹیکس کی مد میں ریاست کو ادا کیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پانچ لاکھ روپے سے زیادہ اور 10 لاکھ روپے سے کم انکم ٹیکس ادا کرنے والے اراکین پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کی تعداد 68 بنتی ہے، جبکہ 27 دوسرے اراکین نے 10 لاکھ روپے سے ایک کروڑ روپے کے درمیان ایف بی آر کو آمدنی ٹیکس کی مد میں ادا کیے۔
ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 15 اراکین ایسے ہیں جنہوں نے انکم ٹیکس کی مد میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم ادا کی۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی مالی سال 18-2017 میں سب سے زیادہ انکم ٹیکس ادا کرنے والے رکن پارلیمان رہے۔ انہوں نے 24 کروڑ 20 لاکھ 98 ہزار روپے ایف بی آر کو ادا کیے۔
کراچی سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نجیب ہارون سب سے زیادہ انکم ٹیکس ادا کرنے والوں میں دوسرے نمبر پر رہے۔ انہوں نے 14 کروڑ 36 ہزار روپے ایف بی آر کے پاس جمع کرائے۔ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے ساڑھے تین کروڑ روپے سے زیادہ کا انکم ٹیکس جمع کروایا، جبکہ قبائلی اضلاع سے سجاد حسین طوری کے ذمے ایک کروڑ 70 لاکھ روپے سے زیادہ کا آمدنی ٹیکس بنا۔
خیبر پختونخوا سے سینیٹر طلحہ محمود نے تقریباً تین کروڑ روپے انکم ٹیکس کی مد میں ادا کیے۔
ٹیکس کی تفصیلات
مجموعی طور پر 15 اراکین پارلیمنٹ نے ایک کروڑ روپے سے زیادہ کا انکم ٹیکس جمع کیا۔ ان میں وفاقی وزیر حماد اظہر (پانچ کروڑ 94 لاکھ 42 ہزار 700 روپے)، وفاقی وزیر برائے عمر ایوب خان (دو کروڑ 60 لاکھ 55 ہزار 517 روپے) بھی شامل ہیں۔
ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے مالی سال 18-2017 میں 2 لاکھ 82 ہزار 449 روپے، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف نے 97 لاکھ 30 ہزار 595 روپے، پاکستان مسلم لیگ کے رانا ثنا اللہ نے 13 لاکھ 88 ہزار 275 روپے، وفاقی وزیر اسد عمر نے 53 لاکھ 46 ہزار 342 روپے، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور وفاقی وزیر ریلویز شیخ رشید احمد نے 5 لاکھ 79 ہزار 11 روپے جمع کرائے۔
اسی طرح وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 1 لاکھ 83 ہزار 9 سو روپے، ایم این اے نور عالم خان نے 30 ہزار 458 روپے، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے 2 لاکھ 94 ہزار 117 روپے اور آصف علی زرداری نے 28 لاکھ 89 ہزار 455 روپے، پاکستان مسلم لیگ کے رہنما حمزہ شہباز شریف نے 87 لاکھ 5 ہزار 368 روپے دیے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے 2لاکھ 16 ہزار 800 روپے، وفاقی وزیراطلاعات شبلی فرازنے 3 لاکھ 67 ہزار460 روپے، اعظم خان سواتی نے 5 لاکھ90 ہزار 916 روپے، چوہدری تنویر احمد نے 32 لاکھ 38 ہزار733 روپے، وزیر دفاع پرویز خٹک نے 18 لاکھ 26 ہزار899 روپے، وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے 10 لاکھ 46 ہزار 669 روپے جمع کرائے۔
وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے 3 لاکھ 74 ہزار728 روپے، وفاقی وزیر علی زیدی نے 8 لاکھ 96 ہزار191 روپے، وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے 16 لاکھ 98 ہزار651 روپے، سینیٹر امام دین شوقین نے 97 لاکھ 99 ہزار روپے دیے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے 13 لاکھ 63 ہزار روپے، ڈاکٹر اشوک کمار نے 69 لاکھ 98 ہزار روپے، سینیٹر محسن عزیز نے 12 لاکھ 30 ہزار روپے، پاکستان مسلم لیگ کے سینیٹر مصدق ملک نے 25 لاکھروپے، پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے 41 لاکھ 22 ہزار روپےفاروق ایچ نائیک نے 64 لاکھ 71 ہزار روپے، سلیم مانڈوی والا نے 15 لاکھ 91 ہزار روپے اور سینیٹر شیری رحمان نے 15 لاکھ 12 ہزار روپے انکم ٹیکس کی مد میں ادا کیے۔