لاہور-سیالکوٹ موٹر وے پر خاتون کے گینگ ریپ کا واقعہ پیش آئے 13 دن گزر گئے ہیں۔ لیکن پنجاب پولیس کیس کے مرکزی ملزم عابد علی ملہی کو اب تک گرفتار نہیں کر پائی ہے۔ ملزم کی ڈی این اے ڈیٹا بیس ریکارڈ سے شناخت بھی ہوچکی ہے جبکہ یہ پولیس کو اطلاع ملنے کے بعد چھاپوں کے دوران تین بار ہاتھ سے نکل گیا۔
آئی جی پنجاب پولیس نے عوام سے ملزم کی گرفتاری کے لیے مدد کی اپیل بھی کی ہے۔
پولیس کے ایک افسر کا کہنا ہے ملزم کو اب صرف کہیں موجودگی کی اطلاع پر ہی گرفتار کیا جا سکتا ہے کیونکہ بار بار پولیس کے ہاتھوں سے نکلنے والے ملزم نے اپنا حلیہ بھی تبدیل کر لیا اور نقل وحرکت بھی محتاط کر لی ہے۔
سول سوسائٹی نے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی پولیس، جس کا بجٹ اور افرادی قوت دیگر صوبوں سے زیادہ ہے، کی ملزم کو پکڑنے میں ناکامی پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔
ملزم کی گرفتاری میں مشکلات
اس کیس کی انکوائری ٹیم میں شامل ایک پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملزم عابد علی کی گرفتاری کے لیے 28 ٹیمیں بنائی گئی ہیں، 'لیکن ہر شعبہ کے افسران پوائنٹ سکورنگ کے لیے خود کریڈٹ لینے کی کوشش میں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملزم بار بار پولیس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ یہ شبہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ شاید محکمہ پولیس کے اندر سے کوئی اسے چھاپے کی اطلاع دیتا ہو، کیونکہ پہلی بار جب ملزم کی رہائش گاہ قلعہ ستار شاہ غازی کوٹ پر چھاپہ مارا گیا تو وہ پہلے ہی فرار ہو گیا۔ دوسری بار ملزم قصورکے ایک گاؤں راؤ خان والا میں رشتہ داروں کے گھر سے اس وقت فرار ہوا جب پولیس وہاں پہنچنے والی تھی۔ جبکہ تیسری بار اس کے رشتہ داروں کے گھر ننکانہ صاحب چھاپہ مارا گیا اور وہ وہاں سے بھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس نے اس کے رشتہ داروں کو حراست میں لے لیا جنہوں نے بتایا کہ ملزم نے داڑھی رکھ کر حلیہ تبدیل کرلیا ہے۔ اسی وجہ سے پولیس نے اس کے چار مختلف خاکے جاری کیے ہیں۔
پولیس افسر کے مطابق ملزم نہ ایک جگہ زیادہ قیام کر رہا ہے نہ ہی موبائل فون استعمال کرتا ہے اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کر رہا ہے یہاں تک کہ وہ کھانا بھی ہوٹل کی بجائے کہیں سے مانگ کر کھاتا ہے۔
پنجاب فورینزک ایجنسی نے جس ڈی این اے ڈیٹا بیس ریکارڈ سے ملزم کی شناخت کی وہ 2013 میں فورٹ عباس میں ریپ کا شکار ہونے والی ایک خاتون سے حاصل کیے گئے ڈی این اے کے نمونے تھے۔
ایف آئی اے پولیس کے ایک افسر حسنین حیدر سے جب سوال کیا گیا کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ملزم نے خود کو اس طرح سے چھپا لیا ہے کہ اسے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پکڑنا مشکل ہے۔
ایف آئی اے افسر کے مطابق وہ خود کو کسی پبلک مقام پر بھی ظاہر نہیں کر رہا لہٰذا اب اس معاملے میں خاموشی سے آپریشن کر رہے ہیں تاکہ وہ قابو میں آ سکے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کو ملزم کی موجودگی سے متعلق کسی بھی وقت کہیں سے بھی اطلاع مل سکتی ہے تو اس پر فوری کارروائی کریں گے۔
عوامی ردعمل
عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاؤنڈیشن پنجاب کی صدر سارہ فراز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس سے ثابت ہوگیا ہےکہ پنجاب پولیس میں ریفارمز کی کتنی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا: 'پولیس صوبائی دارالحکومت میں مرکزی شاہراہ پر پیش آنے والے واقعے کا عام سا ملزم بھی پکڑنے میں ناکام ہے۔'
انہوں نے کہا کہ صورت حال یہ ہے کہ معاملہ اتنا زیادہ اٹھائے جانے کے باوجود مرکزی ملزم بار بار پولیس کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ واقعے کے بعد خواتین سے متعلق غیر محتاط بیان دینے والے سی سی پی او بھی اپنے عہدے پر قائم ہیں۔
سارہ فراز کا کہنا تھا: 'اتنے احتجاج اور میڈیا پر کوریج کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ملزم ہی نہیں پکڑا گیا تو انصاف کیا ملے گا؟'
وومن ایکشن فورم کی رہنما نیلم حسین نے کہا کہ پولیس کو نہ صرف اصلاحات کی ضرورت ہے بلکہ خواتین سے روزبروز بڑھتے ریپ اور تشدد کے واقعات پر بھی سنجیدہ کارروائی کا احساس دلانا ہوگا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اتنے دن گزرنے کے باوجود مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے کی اہلیت نہ رکھنے والی پولیس سنگین مجرموں کو کیسے پکڑ سکتی ہے؟'
انہوں نے کہا کہ ملزم کی گرفتاری میں تاخیر کے ساتھ خواتین میں بھی عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا: 'حیرانی اس بات کی ہے کہ صوبہ کی پولیس کا سربراہ ملزم کی گرفتاری کے لیے عوام سے مدد مانگ رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پولیس نے اپنی ناکامی تسلیم کر لی ہے۔'
واضح رہے کہ موٹر وے ریپ کیس کے ایک ملزم شفقت علی کو جیو فینسنگ کی مدد سے اوکاڑہ کے علاقے دیپال پور سے گرفتار کیا گیا تھا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر شناخت پریڈ کے لیے جیل بھجوایا تھا۔
اطلاعات کے مطابق چھ روز گزر جانے کے باوجود متاثرہ خاتون کو جیل لا کر شناخت پریڈ کا عمل نہیں کرایا جا سکا۔